صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
31. بَابُ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ:
باب: جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔
حدیث نمبر: 6018
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 460  
´مہمان اور میزبانی کے آداب`
«. . . 416- وعن سعيد بن أبى سعيد المقبري عن أبى شريح الكعبي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره، ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة، والضيافة ثلاثة أيام، فما كان بعد ذلك فهو صدقة، ولا يحل له أن يثوي عنده حتى يحرجه. . . .»
. . . سیدنا ابوشریح الکعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئیے کہ اپنے مہمان کا اکرام (عزت) کرے۔ مہمان کی بہترین دعوت ایک دن اور رات ہے اور ضیافت تین دن ہے۔ اس کے بعد جو ہو وہ صدقہ ہے اور مہمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ میزبان کے پاس اتنا عرصہ ٹھہرا رہے کہ میزبان تنگ ہو جائے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 460]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6135، من حديث مالك، ومسلم 48 بعد ح1762، من حديث سعيد المقبري به]

تفقه:
➊ پڑوسی کی عزت وتکریم ضروری ہے۔
➋ میزبان کے لئے مہمان کی احسن طریقے سے ضیافت تین دن تک ہے، اس کے بعد میزبان کو اختیار ہے۔
➌ اکرامِ ضیف (مہمان کی میزبانی اور عزت و احترام) کے موضوع پر حافظ ابواسحاق ابراہیم بن اسحاق الحربی رحمہ اللہ (متوفی 285ھ) نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ اپنی سند کے ساتھ ایک سو بتیس حدیثیں لائے ہیں۔
➍ حافظ ابن عبدالبر نے اس حدیث میں «جائزته» کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ مہمان کی میزبانی واجب نہیں ہے۔ دیکھئے [التمهيد 21/42]
● اس کے مقابلے میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لیلة الضیف حق علیٰ کل مسلم فمن أصبح بفنائه فھو علیه دین إن شاء اقتضی وإن شاء ترك۔» میزبانی کی رات ہر مسلمان پر حق ہے پھر جو اس کے صحن میں رات گزارے تو گھر والے پر قرض ہے چاہے وہ اسے ادا کرے یا چھوڑ دے۔ [سنن ابي داود: 3750 وسنده صحيح]
یہی روایت [سنن ابن ماجه 3677 وسنده قوي] میں «ليلة الضيف واجبة۔» مہمانی کی رات واجب ہے، کے الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
➎ کسی دوسرے کے ہاں اتنے لمبے عرصے تک بطور مہمان قیام کرنا جائز نہیں کہ میزبان بیزار ہو جائے۔
➏ کتاب و سنت میں اعتدال اور میانہ روی کا درس ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 416   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3672  
´جوار (پڑوس) کے حق کا بیان۔`
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ نیک سلوک کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کا احترام اور اس کی خاطرداری کرے، اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3672]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نیک اعمال انجام دینا ایمان کا تقاضا ہے۔

(2)
پڑوسی کے ساتھ عام طور پر واسطہ پڑنے کی وجہ سے اختلاف پیدا ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں، لہٰذا اس کے ساتھ حسن سلوک کا زیادہ اہتمام ہونا چاہیے تاکہ لڑائی جھگڑا نہ ہو۔

(3)
کاروبار میں شراکت رکھنے ولا، بازار میں قریب کا دکاندار، تعلیمی ادارے میں ہم مکتب یا ہم جماعت، ہو سٹل میں ہم کمرہ یا اس عمارت میں رہائش پذیر طالب علم، ایک ہی کارخانے میں کام کرنے والے کارکن اور اس قسم کے دوسرے افراد بھی پڑوسی کے حکم میں ہیں۔

(4)
مہمان کی عزت کا مطلب اس کے لیے معمول سے بہتر کھانا تیار کرنا، اس کےآرام و راحت کا خیال رکھنا، اس کی آمد پر ناگوار ی کا اظہار نہ کرنا اور اس قسم کے دوسرے امور ہیں۔

(5)
بے سوچے سمجھے بات کرنے سے گناہ کی بات منہ سے نکل جاتی ہے، یا ایسی بات کہی جاتی ہے جس سے انسان بعد میں شرمندہ ہو تا ہے، اس لیے غیر ضروری گپ شپ سے اجتناب کرنا چاہیے۔

(6)
زبان کی حفاظت کے نتیجے میں ذکر وتلاو ت وغیرہ کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3672   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3971  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3971]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے۔

(2)
فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔
اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3971   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1967  
´مہمان نوازی کا ذکر اور اس کی مدت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث بیان فرما رہے تھے تو میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا اور کانوں نے آپ سے سنا، آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کی عزت کرتے ہوئے اس کا حق ادا کرے، صحابہ نے عرض کیا، مہمان کی عزت و تکریم اور آؤ بھگت کیا ہے؟ ۱؎ آپ نے فرمایا: ایک دن اور ایک رات، اور مہمان نوازی تین دن تک ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ صدقہ ہے، جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1967]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی کتنے دن تک اس کے لیے پرتکلف کھانابنایاجائے۔

2؎:
اس حدیث میں ضیافت اور مہمان نوازی سے متعلق اہم باتیں مذکور ہیں،
مہمان کی عزت و تکریم کا یہ مطلب ہے کہ خوشی سے اس کا استقبال کیاجائے،
اس کی مہمان نوازی کی جائے،
پہلے دن اور رات میں اس کے لیے پرتکلف کھانے کاانتظام کیا جائے،
مزید اس کے بعد تین دن تک معمول کے مطابق مہمان نوازی کی جائے،
اپنی زبان ذکر الٰہی،
توبہ و استغفار اور کلمہ خیر کے لیے وقف رکھے یا بے فائدہ فضول باتوں سے گریز کرتے ہوئے اسے خاموش رکھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1967   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2500  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے،
یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے،
کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2500   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3748  
´ضیافت (مہمان نوازی) کا بیان۔`
ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرنی چاہیئے، اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے اور ضیافت تین دن تک ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے، اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس کے پاس اتنے عرصے تک قیام کرے کہ وہ اسے مشقت اور تنگی میں ڈال دے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبر دی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: امام مالک سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان «جائزته يوم وليلة» کے متعلق پوچھا گیا: ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3748]
فوائد ومسائل:

(جائزہ) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
کہ مہمان کے روانہ ہوتے وقت بھی اسے اس قدر دے کہ ایک دن رات کی مسافت آسانی سے طے ہوجائے۔
(فتح الباري: 6135)

مہمان کے لئے لازم ہے۔
کہ اپنے میزبان کے احوال کا خیال رکھے اور اسکے لئے اذیت یا مشقت کا باعث نہ بنے۔


میزبان اگر مطالبہ کرے یا کوئی اضطراری کیفیت ہو توتین دن سے زیادہ بھی ٹھر سکتا ہے۔
مگر یہ خدمت میزبان کی طرف سے صدقہ ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3748   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6018  
6018. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ اور کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6018]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ایمان کا تقاضا ہے کہ پڑوسی کو دکھ نہ دیا جائے۔
مہمان کی عزت کی جائے، زبان کو قابو میں رکھا جائے، ورنہ ایمان کی خیر منانی چاہیئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6018