صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
32. بَابُ حَقِّ الْجِوَارِ فِي قُرْبِ الأَبْوَابِ:
باب: پڑوسیوں میں کون سا پڑوسی مقدم ہے؟
حدیث نمبر: 6020
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو عِمْرَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ:" إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قَالَ: إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بابا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوعمران نے خبر دی، کہا کہ میں نے طلحہ سے سنا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری پڑوسنیں ہیں (اگر ہدیہ ایک ہو تو) میں ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا دروازہ تم سے (تمہارے دروازے سے) زیادہ قریب ہو۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6020  
6020. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے دو ہمسائے ہیں ان میں سے کس کو ہدیہ بھیجوں؟ آپ نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6020]
حدیث حاشیہ:
(1)
قریب والے کو ہدیہ دینے میں یہ حکمت ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو پھل فروٹ لے کر آتے جاتے دیکھتا رہتا ہے، لیکن دور والے کو پتا نہیں چلتا، لہٰذا قریب رہنے والے کو ہدیہ دیاجائے۔
(2)
پڑوسی کی حد کیا ہے؟ اس کے متعلق متعدد اقوال مروی ہیں لیکن وہ سارے کے سارے ضعیف ہیں۔
راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے پڑوس کی حد بندی میں عرف کا خیال اور لحاظ رکھا جائے۔
(فتح الباري: 549/10، وسلسلة الأحادیث الضعیفة: 446/1، رقم: 277، وشرح ریاض الصالحین لابن عثیمین: 176/3)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6020