صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
37. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُنْ لَهُ نَصِيبٌ مِنْهَا وَمَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُنْ لَهُ كِفْلٌ مِنْهَا وَكَانَ اللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ مُقِيتًا} :
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) فرمان کہ ”جو کوئی سفارش کرے نیک کام کے لیے اس کو بھی اس میں ثواب کا ایک حصہ ملے گا اور جو کوئی سفارش کرے برے کام میں اس کو بھی حصہ اس کے عذاب سے ملے گا اور ہر چیز پر اللہ نگہبان ہے“۔
{كِفْلٌ} نَصِيبٌ قَالَ أَبُو مُوسَى: {كِفْلَيْنِ} أَجْرَيْنِ بِالْحَبَشِيَّةِ.
‏‏‏‏ «كفل» کے معنی اس آیت میں حصہ کے ہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حبشی زبان میں «كفلين» کے معنی دو اجر کے ہیں۔
حدیث نمبر: 6028
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَتَاهُ السَّائِلُ أَوْ صَاحِبُ الْحَاجَةِ قَالَ:" اشْفَعُوا فَلْتُؤْجَرُوا، وَلْيَقْضِ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ مَا شَاءَ".
ہم سے محمد بن العلاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی مانگنے والا یا ضرورت مند آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ لوگو! تم سفارش کرو تاکہ تمہیں بھی ثواب ملے اور اللہ اپنے نبی کی زبان پر جو چاہے گا فیصلہ کرائے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2672  
´بھلائی کا راستہ بتانے والا بھلائی کرنے والے کی طرح ہے۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شفاعت (سفارش) کرو تاکہ اجر پاؤ، اللہ اپنے نبی کی زبان سے نکلی ہوئی جس بات (جس سفارش) کو بھی چاہتا ہے پورا کر دیتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2672]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اگرکوئی رسول اللہ ﷺ سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے چیز مانگتا ہے اور تم سمجھتے ہوکہ حقیقت میں یہ شخص ضرورت مند ہے تو تم اس کے حق میں سفارش کے طورپر دوکلمہ خیر کہہ دو،
تو تمہیں بھی اس کلمہ خیر کہہ دینے کا ثواب ملے گا،
لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس میں جس سفارش کی ترغیب دی گئی ہے،
وہ ایسے امور کے لیے ہے جو حلال اور مباح ہیں،
حرام یا شرعی حد کو ساقط کرنے کے لیے سفارش کی اجازت نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2672   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6028  
6028. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس جب کوئی سائل یا حاجت مند آتا تو فرماتے: اس کی سفارش کرو تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان کے زریعے سے جو چاہے فیصلہ کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6028]
حدیث حاشیہ:
آیت اور حدیث میں نیک کام کی سفارش کرنے کی ترغیب ہے، ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے مگر سفارش کرنے والے کو اجر ضرور مل جائے گا۔
دوسری روایت میں یہ مضمون یوں ادا ہوا ہے۔
''الدالُ علی الخیرِ کَفاعلِهِ'' خیر کے لئے رغبت دلانے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس کے کرنے والے کو ملے گا۔
کاش خواص اگر اس پر توجہ دیں تو بہت سے دینی امور اور امدادی کام انجام دیئے جا سکتے ہیں۔
مگر بہت کم خواص اس پر توجہ دیتے ہیں۔
یا اللہ! تیری مدد اور نصرت کے بھروسے سے بخاری شریف کے اس پارے نمبر 25 کی تسوید کے لیے قلم ہاتھ میں لی ہے۔
پروردگار اپنی مہربانی سے اس کو بھی پورا کرنے کی سعادت عطا فرما اور اس کی اشاعت کے لئے غیب سے مددکرتا کہ میں اسے اشاعت میں لا کر تیرے حبیب حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی کی تبلیغ واشاعت کا ثواب عظیم حاصل کر سکوں آمین یا رب العالمین (نا چیز محمد داؤد راز نزیل الحال جامع اہل حدیث بنگلور 15 رمضان المبارک 1395ھ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6028   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6028  
6028. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس جب کوئی سائل یا حاجت مند آتا تو فرماتے: اس کی سفارش کرو تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان کے زریعے سے جو چاہے فیصلہ کرتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6028]
حدیث حاشیہ:
آیت کریمہ کے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو دوبارہ اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ بتایا جائے کہ سفارش کی دوقسمیں ہیں، جس سفارش پر اجرو ثواب کا وعدہ ہے اس سے مراد اچھے کام کی سفارش ہے۔
سفارش حسنہ، یعنی اچھے کام کی سفارش کا ضابطہ یہ ہے کہ ایسے کام کی سفارش ہو جس کی شرعاً اجازت ہے۔
جس کام کی شرعی طور پر اجازت نہیں، اس کی سفارش کرنا بھی جائز نہیں بلکہ وہ بری سفارش ہے جس پر سفارش کرنے والا گناہ کا حقدار ہوگا۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 555/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6028