صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
43. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اے ایمان والو! کوئی قوم کسی دوسری قوم کا مذاق نہ بنائے اسے حقیر نہ جانا جائے کیا معلوم شاید وہ ان سے اللہ کے نزدیک بہتر ہو۔“ «فأولئك هم الظالمون‏» تک۔
حدیث نمبر: 6042
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَضْحَكَ الرَّجُلُ مِمَّا يَخْرُجُ مِنَ الْأَنْفُسِ وَقَالَ: بِمَ يَضْرِبُ أَحَدُكُمُ امْرَأَتَهُ ضَرْبَ الْفَحْلِ أَوِ الْعَبْدِ ثُمَّ لَعَلَّهُ يُعَانِقُهَا"، وَقَالَ الثَّوْرِيُّ، وَوُهَيْبٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، جَلْدَ الْعَبْدِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی ریح خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے کس طرح ایک شخص اپنی بیوی کو زور سے مارتا ہے جیسے اونٹ، حالانکہ اس کی پوری امید ہے کہ شام میں اسے وہ گلے لگائے گا۔ اور ثوری، وہیب اور ابومعاویہ نے ہشام سے بیان کیا کہ (جانور کی طرح) کے بجائے لفظ غلام کی طرح کا استعمال کیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1983  
´عورتوں کو مارنے پیٹنے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، پھر عورتوں کا ذکر کیا، اور مردوں کو ان کے سلسلے میں نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: کوئی شخص اپنی عورت کو لونڈی کی طرح کب تک مارے گا؟ ہو سکتا ہے اسی دن شام میں اسے اپنی بیوی سے صحبت کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1983]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عورتوں کو غلطی پر تنبیہ کرناضروری ہے لیکن یہ صرف زبانی ہونی چاہیے۔
اگر کوئی عورت زیادہ ہی بے پروا اور گستاخ ہو تو اس سے ناراض ہو جائے، یہ سزا کافی ہے۔
جسمانی سزا صرف اس وقت جائز ہےجب اس سوا چارہ نہ رہے۔

(2)
لونڈی کی طرح پیٹنے کا یہ مطلب نہیں کہ لونڈی کو بے تحاشا مارنا جائز ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح لوگ لونڈیوں کومارتے ہیں، آپ کو اپنی بیویوں سے ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔
ان کے ساتھ زندگی بھر کا ساتھ ہے۔
اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہو ئے عورتوں پر ناجائز سختی نہیں کرنی چا ہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1983   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 913  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 913»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء، حديث:5204.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عبد اللہ بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب بن اسد بن عبدالعزیٰ اسدی۔
مشہور صحابی ہیں۔
ان کا شمار اہل مدینہ میں ہوتا ہے۔
یہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے روز شہید ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 913   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6042  
6042. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو ہوا خارج ہونے پر ہنسنے سے منع کیا۔ نیز فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو نر حیوان جیسی مار کیوں مارتا ہے پھر شاید اس کو بغل میں لے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6042]
حدیث حاشیہ:
گوز آنا ایک فطری امر ہے جو ہر انسان کے لئے لازم ہے، پھر ہنسنا انتہائی حماقت ہے۔
اکثر چھوٹے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کے گوز کی آواز سن کر ہنستے اورمذاق بنا لیتے ہیں۔
یہ حرکت انتہائی مذموم ہے۔
ایسے ہی اپنی عورت کو جانوروں کی طرح بے تحاشا مارنا کسی بدعقل ہی کا کام ہو سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6042   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6042  
6042. حضرت عبداللہ بن زمعہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو ہوا خارج ہونے پر ہنسنے سے منع کیا۔ نیز فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو نر حیوان جیسی مار کیوں مارتا ہے پھر شاید اس کو بغل میں لے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6042]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس پوری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین امور ذکر کیے ہیں:
حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو مارنے کا واقعہ، دوسرا ہوا خارج ہونے پر ہنسی کا واقعہ اور تیسرا بیوی کو مارنے پر تنبیہ۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث4942)
کسی کی ہوا خارج ہونے پر ہنسنے میں استہزا اور مذاق کا پہلو نمایاں ہے اور آیت کریمہ میں بھی استہزا ومذاق کرنے کی ممانعت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہنسنے سے منع فرمایا کیونکہ ہوا کا خارج ہونا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔
(2)
کچھ لوگ اختیار کے ساتھ زور سے ہوا خارج کرتے ہیں، ایسا کرنا بھی بہت معیوب ہے۔
اگرچہ ہوا خارج ہونا ایک فطری امر ہے لیکن اس پر ہنسنا انتہائی حماقت ہے۔
بہرحال یہ حرکت بہت مذموم ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6042