صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
44. بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ:
باب: گالی دینے اور لعنت کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 6045
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيلِيَّ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيهِ بِالْكُفْرِ، إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُهُ كَذَلِكَ".
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین بن ذکوان معلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یحییٰ بن یعمر نے بیان کیا، ان سے ابوالاسود دیلی نے بیان کیا اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی شخص کو کافر یا فاسق کہے اور وہ درحقیقت کافر یا فاسق نہ ہو تو خود کہنے والا فاسق اور کافر ہو جائے گا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6045  
6045. حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: اگر کوئی شخص دوسرے کو فسق اور کفر سے مہتم کرتا ہے اور وہ در حقیقت فاسق یا کافر نہ ہو تو یہ (فسق اور کفر) کہنے والے پر لوٹ آتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6045]
حدیث حاشیہ:
(1)
فسق وکفر سے متہم کرنے سے مراد دوسرے کو اے فاسق اور اے کافر کہنا ہے۔
اگر تہمت زدہ انسان حقیقتاً فاسق یا کافر نہیں تو فسق وکفر کہنے والے پر لوٹ آتا ہے، یعنی وہ فاسق اور کافر بن جاتا ہے۔
کسی کی طرف فسق اور کفر کی نسبت کرنا اسے گالی دینا ہے۔
اس کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس میں فسق یا کفر نہیں پایا جاتا تو کہنے والا خود فاسق یا کافر بن جاتا ہے۔
(2)
اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ اگر کسی میں کفرو فسق کا سبب پایا جاتا ہے تو اسے فاسق یا کافر کہنے میں کوئی گناہ نہیں بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس میں کچھ تفصیل ہے:
اگر اس سے مراد اسے شرمندہ کرنا ہے یا اس کی بری شہرت مقصود ہے اور اسے اذیت دینے کا ارادہ ہے تو ایسا کرنا حرام ہے کیونکہ انسان کو پردہ پوشی کا حکم دیا گیا ہے۔
جب تک کسی کے ساتھ نرم برتاؤ ممکن ہو اس پر سختی کرنا حرام ہے۔
بسا اوقات ایسا اقدام اس کی گمراہی اور اس پر اصرار کا سبب بن جاتا ہے اور اگر اسے یا کسی دوسرے کو اس کاحال بیان کرنے سے اخلاص اور نصیحت مطلوب ہے تو ایسا کرنا جائز ہے۔
(فتح الباري: 572/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6045