صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
44. بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ:
باب: گالی دینے اور لعنت کرنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 6047
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، أَنَّ ثَابِتَ بْنَ الضَّحَّاكِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ، حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى مِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَلَيْسَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَذْرٌ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ فِي الدُّنْيَا عُذِّبَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ لَعَنَ مُؤْمِنًا فَهُوَ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ قَذَفَ مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے، کہا ہم سے علی بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوقلابہ نے کہ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ اصحاب شجر (بیعت رضوان کرنے والوں) میں سے تھے، انہوں نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اسلام کے سوا کسی اور مذہب پر قسم کھائے (کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں نصرانی ہوں، یہودی ہوں) تو وہ ایسا ہو جائے گا جیسے کہ اس نے کہا اور کسی انسان پر ان چیزوں کی نذر صحیح نہیں ہوتی جو اس کے اختیار میں نہ ہوں اور جس نے دنیا میں کسی چیز سے خودکشی کر لی اسے اسی چیز سے آخرت میں عذاب ہو گا اور جس نے کسی مسلمان پر لعنت بھیجی تو یہ اس کے خون کرنے کے برابر ہے اور جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے تو وہ ایسا ہے جیسے اس کا خون کیا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2098  
´اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں جانے کی قسم کھانے کا بیان۔`
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2098]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  دوسرے مذہب کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہا:
اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی ہوں یا کہا:
اگر میں جھوٹ کہوں تو کافر ہو جاؤں۔
اس انداز کی قسم سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(2)
  حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ اگر قسم کھاتے وقت اس کا ارادہ بھی یہی تھا کہ اگر اس نے یہ کام کیا تو وہ کفر کا راستہ اختیار کر لے گا تو وہ فی الفور کافر ہو جائے گا اور اگر اس کا مقصد دین اسلام پر استقامت کا اظہار تھا اور اس کا عزم تھا کہ وہ کبھی کفر کا راستہ اختیار نہیں کرے گا تو وہ کافر تو نہیں ہو گا لیکن اس کے لیے اس نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا اس لیے اسے توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ دوبارہ کلمہ شہادت پڑھ کر تجدید اسلام کر لے۔ دیکھیے: (ریاض الصالحین (اردو)
جلد دوم، حدیث: 1710 کے فوائد مطبوعہ دارالسلام)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1543  
´اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کے قسم کی کراہت کا بیان۔`
ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1543]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ تغلیظ وتہدید کے طورپر ہے اگر صحیح عقیدہ کا حامل ہے تو کافر نہیں ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1543   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6047  
6047. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے۔۔۔۔ اور یہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھائی تو وہ اپنے کہنے کے مطابق بن جاتا ہے۔ ابن آدم کا ایسی چیز کے متعلق نذر ماننا صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں۔ جس نے دنیا میں خود کو کسی چیز کے ساتھ قتل کیا تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے سزا دی جائے گی۔ جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے کسی مسلمان کو کفر سے مہتم کیا تو اس کو مار ڈالنے کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6047]
حدیث حاشیہ:
حضرت ثابت بن ضحاک ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک درخت کے نیچے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر جہاد کی بیعت کی تھی جس کا ذکر سورۃ فتح میں ہے کہ اللہ ان مومنوں سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے برضا ورغبت جہاد کی بیعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر کر رہے تھے حدیث کا مضمون ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6047   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6047  
6047. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے۔۔۔۔ اور یہ اصحاب شجرہ سے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھائی تو وہ اپنے کہنے کے مطابق بن جاتا ہے۔ ابن آدم کا ایسی چیز کے متعلق نذر ماننا صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں۔ جس نے دنیا میں خود کو کسی چیز کے ساتھ قتل کیا تو قیامت کے دن اسی کے ساتھ اسے سزا دی جائے گی۔ جس نے کسی مومن پر لعنت کی تو یہ اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے اور جس نے کسی مسلمان کو کفر سے مہتم کیا تو اس کو مار ڈالنے کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6047]
حدیث حاشیہ:
(1)
ملت اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی یا نصرانی ہوں، ایسی صورت میں وہ وہی ہوگا جو اس نے کہا۔
(2)
اس حدیث میں پانچ احکام بیان ہوئے ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے، سردست عنوان کا اعتبار کرتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ مومن پر لعنت کرنا بہت بڑا جرم ہے، گویا اسے قتل کرنا ہے کیونکہ لعنت کے معنی اللہ کی رحمت سے دور کرنا ہیں، اس طرح اسے لعنت کر کے وہ اس سے آخرت کے منافع ختم کرنا چاہتا ہے۔
حدیث میں ہے:
بندہ جب کسی پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے، اس کے آگے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھروہ زمین کی طرف اترتی ہے تو اس کے آگے زمین کے دروازے بھی بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ دائیں اور بائیں جاتی ہے، اگر اسے کہیں جگہ نہ ملے تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس پر واقع ہو جاتی ہے، بشرطیکہ وہ اس کا حق دار ہو بصورت دیگر وہ لعنت، کہنے والے پر لوٹ جاتی ہے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4905)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6047