صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
52. بَابُ مَا قِيلَ فِي ذِي الْوَجْهَيْنِ:
باب: دوغلی بات کرنے والے کے بارے میں جو کہا گیا ہے۔
حدیث نمبر: 6058
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَجِدُ مِنْ شَرِّ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ اللَّهِ ذَا الْوَجْهَيْنِ، الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصالح نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیامت کے دن اللہ کے ہاں اس شخص کو سب سے بدتر پاؤ گے جو کچھ لوگوں کے سامنے ایک رخ سے آتا ہے اور دوسروں کے سامنے دوسرے رخ سے جاتا ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2025  
´دو رخے شخص کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ کی نظر میں دو رخے شخص سے بدتر کوئی نہیں ہو گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2025]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دورخے شخص سے مراد ایسا آدمی ہے جو ایک گروہ کے پاس جائے تو اسے یہ یقین دلائے کہ تمہارا خیر خواہ اور ساتھی ہوں اوردوسرے کا مخالف ہوں،
لیکن جب دوسرے گروہ کے پاس جائے تو اسے بھی اسی طرح کا تاثر دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2025   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6058  
6058. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم قیامت کے دن لوگوں میں اللہ کے ہاں بدتر اس شخص کو پاؤ گے جو دو رخا ہوگا۔ جو ان لوگوں کے پاس ایک منہ سے آتا ہے اور ان کے پاس دوسرے منہ سے آتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6058]
حدیث حاشیہ:
ہر جگہ لگی لپٹی بات کہتا ہے۔
دو رخا آدمی وہ ہے کہ ہر فریق سے ملا رہے۔
جس کی صحبت میں جائے ان کی سی کہے۔
یعنی رکابی مذہب والا (با مسلمان اللہ اللہ با برہمن رام رام)
قال القرطبي إنما کان ذوالوجھین شر الناس لأن حاله حال المنافق (فتح)
یعنی منہ دیکھی بات کرنے والا بد ترین آدمی ہے اس لئے کہ اس کا منافق جیسا حال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6058   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6058  
6058. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: تم قیامت کے دن لوگوں میں اللہ کے ہاں بدتر اس شخص کو پاؤ گے جو دو رخا ہوگا۔ جو ان لوگوں کے پاس ایک منہ سے آتا ہے اور ان کے پاس دوسرے منہ سے آتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6058]
حدیث حاشیہ:
(1)
دو رخا وہ آدمی ہے جو ہر فریق کی ہاں میں ہاں ملانے کا عادی ہو جیسا کہ کہا جاتا ہے:
با مسلمان الله الله بابر همن رام رام۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص کے دنیا میں دوچہرے ہوں گے قیامت کے دن اس کی دو زبانیں آگ کی ہوں گی۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4873) (2)
اس قسم کے لوگ اپنی سمجھ میں بڑے عقلمند بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے ابن الوقت لوگوں کو قرآنی اصطلاح میں منافق کہا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں ان کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔
حدیث کے مطابق قرآن میں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
یہ کفر اور ایمان کے درمیان لٹک رہے ہیں، نہ ادھر کے ہیں اور نہ ادھر کے۔
(النساء4: 143)
بہرحال یہ لوگ انتہائی بزدل اور اخلاقی پستی کا شکار ہوتے ہیں۔
اگر کوئی آدمی اصلاح کی نیت سے فریقین کے پاس آتا جاتا ہے تو وہ قابل مذمت نہیں بلکہ وہ نیک لوگوں میں سے ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6058