صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
67. بَابُ الإِخَاءِ وَالْحِلْفِ:
باب: کسی سے بھائی چارہ اور دوستی کا اقرار کرنا۔
وَقَالَ أَبُو جُحَيْفَةَ آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنِي وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ
اور ابوجحیفہ (وہب بن عبداللہ) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابودرداء کو بھائی بھائی بنا دیا تھا اور عبدالرحمٰن بن عوف نے بیان کیا کہ جب ہم مدینہ منورہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارگی کرائی تھی۔
حدیث نمبر: 6082
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَآخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عبدالرحمٰن بن عوف ہمارے یہاں آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں اور سعد بن ربیع میں بھائی چارگی کرائی تو پھر (جب عبدالرحمٰن بن عوف نے نکاح کیا تو) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب ولیمہ کر خواہ ایک بکری کا ہو۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 362  
´شادی پر حسب استطاعت ولیمہ کرنا مسنون ہے`
«. . . فقال: زنة نواة من ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اولم ولو بشاة . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 362]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5153، من حديث مالك به، ورواه مسلم 81/1427، من حديث حميد الطّويل به وصرّح حميد بالسماع عند البخاري 5072]

تفقه:
➊ شادی پر حسب استطاعت ولیمہ کرنا مسنون ہے۔
➋ افضل یہی ہے کہ نکاح یا شادی کے وقت ہی حق مہر ادا کر دیا جائے۔
➌ اپنی قوم سے باہر دوسری قوم میں شادی کرنا جائز ہے۔ دیکھئے: [تفقه نمبر: 5]
➍ حق مہر زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور کم بھی، اس میں کوئی خاص مقدار ثابت نہیں ہے۔ تاہم اس میں بہت زیادہ اسراف اور غلو نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 2106، ومسند امام أحمد 1/48 ح340 وهو حسن]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «خير النكاح أيسره» بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 4060 دوسرا نسخه 4072 وسنده صحيح، سنن ابي داؤد: 2117، وصححه الحاكم 2/181، 182، عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي]
➎ اپنے قبیلے میں اور قبیلے سے باہر دونوں طرح شادی کرنا بالکل صحیح اور جائز ہے۔
➏ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
➐ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں مروجہ بارات کا کوئی تصور نہیں ہے، وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ اپنی محبوب ترین شخصیت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بارات کے ساتھ لے کر نہ جاتے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 150   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1907  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (کے جسم) پر پیلے رنگ کے اثرات دیکھے، تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے گٹھلی کے برابر سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بارك الله لك أولم ولو بشاة» اللہ تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1907]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
ارشاد نبوی ہے:
مردوں کی خوشبو وہ ہوتی ہے جس کی مہک ظاہر ہو اور رنگ غیر واضح ہو۔
اور عورتٔ کی خوشبو وہ ہوتی ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک غیر واضح ہو۔ (جامع الترمذي، الأدب، باب ماجاء فی طیب الرجال والنساء، حدیث: 2787)

(2)
رسول اللہ ﷺ نے صحابی کے لباس میں عورتوں کی خوشبو کا نشان دیکھا اس لیے دریافت کیا کہ تم نے عورتوں کی خوشبو کیوں لگا رکھی ہے؟ اس میں ایک لطیف انداز سے تنبیہ بھی ہے کہ اس کا استعمال تمہارے لیے مناسب نہیں۔
اور یہ اشارہ بھی ہے کہ اگر کوئی معقول عذر ہے تو بیان کرو۔

(3)
کسی میں غلطی دیکھ کر فوراً سختی کرنا درست نہیں بلکہ غلطی کرنے والے سے اس کی وجہ دریافت کرنی چاہیے تاکہ اسے اتنی ہی تنبیہ کی جائے جتنی ضروری ہے۔

(4)
گٹھلی سے مراد کجھور کی گٹھلی ہے۔
یہ اس دور کا ایک معروف وزن تھا۔
جس کی مقدار پانچ درہم (تقریبا ڈیڑھ تولہ)
ذکر کی گئی ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکاۃ، النکاح، باب الولیمة، حدیث: 3210)

(5)
ارشاد نبوی اگرچہ ایک بکری ہو۔
میں اشارہ ہے کہ ان میں زیادہ کی استطاعت تھی اس سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی گنجائش کے مطابق جس قدر اہتمام آسانی سے اور زیر بار ہوئے بغیر ہو سکے وہ کافی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1907   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1094  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1094]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎: (أولم ولو بشأة) میں لو تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم ازکم ایک بکری ذبح کرو،
لیکن نبی اکرمﷺ نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستواورکجھورپر اکتفاکیا،
اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو،
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالی حالت کے پیش نظرایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپﷺ نے اُن سے أَولِم وَلَو بِشَأة فرمایا۔

2؎:
شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں،
یہ ولم (واؤکے فتحہ اورلام کے سکون کے ساتھ) سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھا اور جمع ہونے کے ہیں،
چونکہ میاں بیوی اکٹھا ہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں،
ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعد ہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اوربعض نے اسے واجب کہا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1094   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2109  
´مہر کم رکھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جسم پر زعفران کا اثر دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے، پوچھا: اسے کتنا مہر دیا ہے؟ جواب دیا: گٹھلی (نواۃ ۱؎) کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2109]
فوائد ومسائل:
1: انسان کو اپنی اسطاعت کے مطابق حق مہر باندھنا چاہیے جو لینا دینا آسان ہو۔

2: زعفران اور دیگر رنگدار چیزیں (پاوڈر) مردوں کو استعمال کر نا جائز نہیں۔

3: شادی یا غمی کے موقع پر بھی قریب وبعید کے عزیزواقارب کو بلا کسی اہم مقصد کے جمع کرنا کوئی سنت نہیں ہے ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی شادی ہوئی اور رسول ﷺکو خبر نہیں دی گئی۔

4: اصل سنت ولیمہ ہے حسب استطاعت جو میسر آئے بکری ہو یا کم و پیش کچھ اور جیسے کہ رسول ﷺنے سیدہ صفیہ رضی اللہ کے ولیمہ میں ستو ہی پیش فرمائے تھے۔

5: اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری شادیاں، سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
مثلا لمبی چوڑی براتیں اور پھر ان کی پر تکلف ضیافت۔
اسی طرح ولیمے میں انواع واقسام کے کھانوں کی بھر مار اور دیگر رسومات اس اسراف وتبذیر اور فضولیات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
(تفصیل کے لیےدیکھیں مسنون نکاح اور شادی بیاں کی رسومات، مطبوعہ دار السلام تالیف.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2109   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6082  
6082. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ہمارے پاس مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان کے اور سعد بن ربیع ؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ نبی ﷺ نے (حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے) فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6082]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ بھائی چارے کے نتیجے میں انصار کی طرف سے جو ہمدردی اور ایثار کا مظاہرہ ہوا، اس کی مثال اقوام عالم میں نہیں چلتی، چنانچہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نصف جائیداد دینے کی پیش کش کی بلکہ ان کی دو بیویاں تھیں، انہوں نے مزید کہا:
تم کسی ایک بیوی کو پسند کر لو میں اسے طلاق دے کر فارغ کر دیتا ہوں تاکہ تم اس سے نکاح کر لو، لیکن انہوں نے ان کی پیش کش سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ ان سے بازار کا راستہ پوچھا، محنت و مزدوری کر کے اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پالا، بالآخر ان کی شادی ایک انصاری عورت سے ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
'ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ذبح کرو۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے سلسلۂ مؤاخات کو ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6082