صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
73. بَابُ مَنْ كَفَّرَ أَخَاهُ بِغَيْرِ تَأْوِيلٍ فَهْوَ كَمَا قَالَ:
باب: جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو جس میں کفر کی وجہ نہ ہو کافر کہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 6105
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِشَيْءٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، وَلَعْنُ الْمُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ رَمَى مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے، ان سے ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اسلام کے سوا کسی اور مذہب کی جھوٹ موٹ قسم کھائی تو وہ ویسا ہی ہو جاتا ہے، جس کی اس نے قسم کھائی ہے اور جس نے کسی چیز سے خودکشی کر لی تو اسے جہنم میں اسی سے عذاب دیا جائے گا اور مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے برابر ہے اور جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2098  
´اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں جانے کی قسم کھانے کا بیان۔`
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین میں چلے جانے کی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی، تو وہ ویسے ہی ہو گا جیسا اس نے کہا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2098]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  دوسرے مذہب کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہا:
اگر میں نے فلاں کام کیا ہو تو میں یہودی ہوں یا کہا:
اگر میں جھوٹ کہوں تو کافر ہو جاؤں۔
اس انداز کی قسم سے پرہیز کرنا چاہیے۔

(2)
  حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ اگر قسم کھاتے وقت اس کا ارادہ بھی یہی تھا کہ اگر اس نے یہ کام کیا تو وہ کفر کا راستہ اختیار کر لے گا تو وہ فی الفور کافر ہو جائے گا اور اگر اس کا مقصد دین اسلام پر استقامت کا اظہار تھا اور اس کا عزم تھا کہ وہ کبھی کفر کا راستہ اختیار نہیں کرے گا تو وہ کافر تو نہیں ہو گا لیکن اس کے لیے اس نے جو طریقہ اختیار کیا، وہ غلط تھا اس لیے اسے توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے بلکہ بہتر ہے کہ دوبارہ کلمہ شہادت پڑھ کر تجدید اسلام کر لے۔ دیکھیے: (ریاض الصالحین (اردو)
جلد دوم، حدیث: 1710 کے فوائد مطبوعہ دارالسلام)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2098   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1543  
´اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کے قسم کی کراہت کا بیان۔`
ثابت بن ضحاک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اسلام کے سوا کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم کھائی وہ ویسے ہی ہو گیا جیسے اس نے کہا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1543]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ تغلیظ وتہدید کے طورپر ہے اگر صحیح عقیدہ کا حامل ہے تو کافر نہیں ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1543   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6105  
6105. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جس نے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا اس نے کہا ہے۔ اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کر لیا تو اسے جہنم میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ اور مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اور جس نے کسی مومن پر کفر تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6105]
حدیث حاشیہ:
کسی مذہب پر قسم کھانا مثلاً یوں کہا کہ اگر میں نے یہ کام کیا تو میں یہودی یا نصرانی وغیرہ وغیرہ ہو جاؤں یہ بہت بری قسم ہے۔
أعاذنااللہ منه۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6105   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6105  
6105. حضرت ثابت بن ضحاک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: جس نے اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسا اس نے کہا ہے۔ اور جس نے کسی چیز سے اپنے آپ کو قتل کر لیا تو اسے جہنم میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ اور مومن پر لعنت بھیجنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اور جس نے کسی مومن پر کفر تہمت لگائی تو یہ اس کے قتل کے برابر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6105]
حدیث حاشیہ:
(1)
اسلام کے سوا کسی مذہب و ملت کی قسم یہ ہے کہ وہ یوں کہے:
اگر میں نے ایسا کیا تو میں یہودی یا عیسائی ہوا۔
اگر وہ اس قسم میں جھوٹا ہے تو بھی یہودی یا عیسائی ہو جائے گا کیونکہ ایسا کرنا یہودیت یا نصرانیت کی تعظیم ہے اور اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی تعظیم کرنا کفر ہے۔
(2)
اس حدیث کا دوسرا جملہ کہ مومن پر لعنت کرنا اسے قتل کرنے کی طرح ہے کیونکہ لعنت کے معنی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کرنا ہے اور کسی کو قتل کرنا بھی دنیاوی زندگی سے دور کرنے کا باعث ہے۔
(3)
آخری جملہ یہ ہے کہ مسلمان کو کفر کی طرف منسوب کرنا اسے قتل کرنے کی مانند ہے۔
اس تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ کفر، قتل کا موجب ہے گویا کفر کی طرف نسبت کرنے والے نے قتل کے سبب کی طرف نسبت کی گویا اسے قتل کر دیا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی کی طرف کفر کی نسبت معقول تاویل کی وجہ سے ہے تو وہ قتل کے مانند نہیں ہو گا، یعنی وہ اس وعید کا سزاوار نہیں ہو گا جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6105