صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
77. بَابُ الْحَيَاءِ:
باب: حیاء اور شرم کا بیان۔
حدیث نمبر: 6117
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي السَّوَّارِ الْعَدَوِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْحَيَاءُ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ" فَقَالَ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ: مَكْتُوبٌ فِي الْحِكْمَةِ إِنَّ مِنَ الْحَيَاءِ وَقَارًا وَإِنَّ مِنَ الْحَيَاءِ سَكِينَةً، فَقَالَ لَهُ عِمْرَانُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتُحَدِّثُنِي عَنْ صَحِيفَتِكَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے ان سے ابوالسوار عدوی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمران بن حصین سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے۔ اس پر بشیر بن کعب نے کہا کہ حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حیاء سے وقار حاصل ہوتا ہے، حیاء سے سکینت حاصل ہوتی ہے۔ عمران نے ان سے کہا میں تجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اپنی (دو ورقی) کتاب کی باتیں مجھ کو سناتا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6117  
6117. حضرت عمر بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سن کر بشیر بن کعب نے کہا: حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حیا سے وقار پیدا ہوتا ہے اور حیا سے سکون قلب میسر آتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور مجھے اپنی (دو ورقی) کتاب کی باتیں سناتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6117]
حدیث حاشیہ:
حالانکہ بشیر بن کعب نے حکیموں کی کتاب سے حدیث کی تائید کی تھی مگر عمران نے اس کو بھی پسند نہیں کیا کیونکہ حدیث یا آیت سننے کے بعد پھر اوروں کا کلام سننے کی ضرورت نہیں، جب آفتاب آ گیا تو مشعل یا چراغ کی کیا ضرورت ہے۔
اس حدیث سے ان بعض لوگون کو نصیحت لینی چاہیئے جو حدیث کا معارضہ کسی امام یا مجتہد کے قول سے کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے ہی مقلدین کے بارے میں بصد افسوس کہا ہے ''فما یکون جوابھم یوم یقوم الناس لرب العالمین'' قیامت کے دن ایسے لوگ جب بارگاہ الہٰی میں کھڑے ہوں گے اور سوال ہوگا کہ تم نے میرے رسول کا ارشاد کا سن کر فلاں امام کا قول کیوں اختیار کیا تو ایسے لوگ اللہ پاک کو کیا جواب دیں گے دیکھو۔
حجۃ اللہ البالغۃ اردو، صفحہ: 240۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6117   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6117  
6117. حضرت عمر بن حصین ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: حیا سے ہمیشہ بھلائی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سن کر بشیر بن کعب نے کہا: حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حیا سے وقار پیدا ہوتا ہے اور حیا سے سکون قلب میسر آتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے کہا: میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور مجھے اپنی (دو ورقی) کتاب کی باتیں سناتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6117]
حدیث حاشیہ:
(1)
جو شخص حیا کی صفت سے متصف ہو گا اور وہ لوگوں سے حیا کرے گا کہ اگر لوگ اسے فسق و فجور میں مبتلا دیکھیں گے تو کیا کہیں گے ایسا انسان اللہ تعالیٰ سے بہت حیا کرے گا۔
جو انسان اللہ تعالیٰ سے حیا کرتا ہو تو حیا اسے حقوق و واجبات کے ضائع کرنے اور گناہوں کے ارتکاب سے روکے گی کیونکہ حیا فواحش و منکرات سے منع کرتی ہے اور نیکی پر ابھارتی ہے، جیسے ایمان، اہل ایمان کو فسق و فجور سے منع کرتا ہے اور گناہوں سے دور رکھتا ہے، لہذا ان امور میں حیا، ایمان کے مساوی ہے اگرچہ حیا ایک طبعی چیز ہے اور ایمان، مومن کا کسبی فعل ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
حیا ایمان کا حصہ ہے۔
(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 24) (2)
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، اس لیے ناراض ہوئے کہ حدیث سننے کے بعد دوسروں کا کلام سننے کی کوئی ضرورت نہیں جبکہ بشیر بن کعب نے حدیث سننے کے بعد حکماء کی حکمت بیان کرنا شروع کر دی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6117