صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
81. بَابُ الاِنْبِسَاطِ إِلَى النَّاسِ:
باب: لوگوں کے ساتھ فراخی سے پیش آنا۔
حدیث نمبر: 6130
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ فَيَلْعَبْنَ مَعِي".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی تھی، میری بہت سی سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لاتے تو وہ چھپ جاتیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1982  
´عورتوں سے اچھے سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، تو آپ میری سہیلیوں کو میرے پاس کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1982]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لڑکیوں کا گڑیوں کے ساتھ کھیلنا جائز ہے۔

(2)
بچوں کو جائز کھیل کھیلنے کا موقع دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1982   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6130  
6130. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی موجودگی میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ میری بہت سی سہلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اللہ ﷺ گھر داخل ہوتے تو وہ چھپ جاتیں۔ آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیجتے پھر وہ میرے ساتھ کھیل میں مصروف ہو جاتیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6130]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے بچوں کے لئے گڑیوں سے کھیلنا بالاتفاق جائز رکھا گیا ہے اور گڑیوں کو ان مورتوں میں سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے جن کا بنانا حرام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6130   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6130  
6130. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی موجودگی میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ میری بہت سی سہلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں جب رسول اللہ ﷺ گھر داخل ہوتے تو وہ چھپ جاتیں۔ آپ ﷺ انہیں میرے پاس بھیجتے پھر وہ میرے ساتھ کھیل میں مصروف ہو جاتیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6130]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان کے دو جز ہیں:
پہلا لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور دوسرا اپنے اہل خانہ سے خوش طبعی کرنا۔
اس حدیث میں اپنے اہل خانہ سے خوش طبعی کا بیان ہے۔
اس کی مزید وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک یا خیبر سے واپس گھر آئے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ لٹکا ہوا تھا۔
ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اٹھا دی۔
اس وقت سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
عائشہ! یہ کیا ہے؟ میں نے کہا:
یہ میری گڑیاں ہیں۔
آپ نے ان میں کپڑے کا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر تھے۔
آپ نے پوچھا:
میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا:
یہ گھوڑا ہے۔
آپ نے پوچھا:
اس کے اوپر کیا ہے؟ میں نے کہا:
اس کے دو پر ہیں۔
آپ نے فرمایا:
کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:
آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جواب پر اس قدر ہنسے کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں دیکھیں۔
(سنن أبي داود، الأدب،حدیث: 4932)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوش طبعی کا یہ ایک نمونہ ہے۔
کتب احادیث میں بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔
نوٹ:
بچوں اور بچیوں کو گڑیوں سے کھیلنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ یہ ان کا فطری حق ہے مگر ضروری ہے کہ ان کی تفریحات شریعت کے مزاج کے خلاف نہ ہوں۔
بچیاں اگر اپنے طور پر ہاتھ سے گڑیاں گڈے بنائیں تو جائز ہے، تاہم خیال رہے کہ دور حاضر میں ان کھلونوں کی جو ترقی یافتہ جدید صورت ہے کہ پلاسٹک وغیرہ سے بنے ہوئے کھلونے نقل مطابق اصل ہوتے ہیں ان کے متعلق ہمارا رجحان ہے کہ یہ جائز نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ انہیں گھروں میں بطور آرائش نمایاں کر کے رکھا جاتا ہے، اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6130