صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
85. بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَخِدْمَتِهِ إِيَّاهُ بِنَفْسِهِ:
باب: مہمان کی عزت اور خود اس کی خدمت کرنا۔
حدیث نمبر: 6136
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن مہندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس پر لازم ہے کہ بھلی بات کہے ورنہ چپ رہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3971  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3971]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے۔

(2)
فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔
اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3971   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2500  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے،
یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے،
کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2500   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6136  
6136. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہووہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ جو شخص اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ اور جو شخص اللہ ہر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا پھر چپ رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6136]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ میزبان کو اپنے خاص عطیے سے مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:
اللہ کے رسول! عطیے سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:
ایک دن اور ایک رات اور مہمان نوازی تین دن تک، اس سے زائد صدقہ ہے۔
(صحیح مسلم، اللقطة، حدیث: 4513(48)
ایک دوسری حدیث میں ہے:
مہمان کی ایک رات ضیافت تو ہر مسلمان پر واجب ہے۔
اگر اس نے محرومی کی حالت میں اس کے ہاں صبح کی تو اس کے لیے میزبان پر قرض ہو گا، اگر چاہے تو اس سے مطالبہ کر لے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے۔
(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3677) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق چند وجوہات کی بنا پر مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے:
٭ ضیافت کو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان کی فرع قرار دیا گیا ہے۔
٭ تین دن سے زائد صدقہ ہے کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے واجب ہے۔
٭ مذکورہ بالا ابن ماجہ کی روایت میں اس کے واجب ہونے کی صراحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6136