صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
85. بَابُ إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَخِدْمَتِهِ إِيَّاهُ بِنَفْسِهِ:
باب: مہمان کی عزت اور خود اس کی خدمت کرنا۔
حدیث نمبر: 6138
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیئے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے، جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہیئے کہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ چپ رہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3971  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیئے کہ وہ اچھی بات کہے، یا خاموش رہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3971]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بری بات کہنے سے اجتناب ایمان کا تقاضہ ہے۔

(2)
فضول باتیں کرنے سے اجتناب کرنا اور خاموش رہنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بے فائدہ باتوں میں مشغول رہنے سے ذکر الہی اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنا بہت ہی بہتر ہے۔
اس کی وجہ سے گناہ سے حفاظت ہوتی ہے اور نیکیاں زیادہ ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3971   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2500  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ بولنے سے پہلے بولنے والا خوب سوچ سمجھ لے تب بولے،
یا پھر خاموش ہی رہے تو بہتر ہے،
کہیں ایسا نہ ہو کہ بھلی بات بھی الٹے نقصان دہ ہوجائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2500   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6138  
6138. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چایئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ اور جو اللہ پر ایمان اور قیامت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6138]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں جو صفات حسنہ مذکور ہوئی ہیں وہ اتنی اہم ہیں کہ ان سے محروم رہنے والے آدمی کو ایمان سے محروم کہا جا سکتا ہے۔
مہمان کا اکرام کرنا، صلہ رحمی کرنا، زبان قابو میں رکھنا یہ بڑی ہی اونچی خوبیاں ہیں جو ہر مسلمان کے اندر ہونی ضروری ہیں، ورنہ خالی نماز روزہ بے وزن ہوکر رہ جائیں گے۔
آج کل کتنے ہی نمازی مدعیان دین ہیں جو محض لفافہ ہیں اندر کچھ نہیں ہے۔
بے مغز بے کار محض ہوتی ہے، کتنے نام نہاد علماء وحفاظ بھی ایسے ہوتے ہیں جو محض ریا ونمود کے طلب گار ہوتے ہیں۔
إلا ماشاء اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6138   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6138  
6138. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو شخص اللہ پر ایمان اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چایئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ اور جو اللہ پر ایمان اور قیامت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6138]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ میزبانی وصول کرنے کا حکم ابتدائے اسلام میں عربوں کے ہاں رائج دستور کے مطابق تھا کہ مہمان، میزبان سے اپنا حق چھین لے۔
آج کل ہوٹلوں کا دور ہے، مسافر کو کھانے پینے کے معاملے میں کسی قسم کی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن حدیث کا تقاضا یہی ہے کہ مہمانوں کی خبر گیری کی جائے اور ایسا کرنا اہل اسلام کے لیے ضروری ہے۔
(2)
مذکورہ بالا حدیث کے مطابق اگر مہمان نوازی نہ کی جائے تو مہمان کو اپنا حق چھین لینے کی اجازت ہے، اس کے عدم وجوب پر جو تاویل پیش کی گئی ہے اس کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6138