صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
88. بَابُ قَوْلِ الضَّيْفِ لِصَاحِبِهِ لاَ آكُلُ حَتَّى تَأْكُلَ:
باب: مہمان کو اپنے میزبان سے کہنا کہ جب تک تم ساتھ نہ کھاؤ گے میں بھی نہیں کھاؤں گا۔
فِيهِ حَدِيثُ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
‏‏‏‏ اس باب میں ابوجحیفہ کی ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔
حدیث نمبر: 6141
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" جَاءَ أَبُو بَكْرٍ بِضَيْفٍ لَهُ أَوْ بِأَضْيَافٍ لَهُ فَأَمْسَى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَتْ لَهُ أُمِّي: احْتَبَسْتَ عَنْ ضَيْفِكَ أَوْ عَنْ أَضْيَافِكَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: مَا عَشَّيْتِهِمْ؟ فَقَالَتْ: عَرَضْنَا عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا أَوْ فَأَبَى، فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ فَسَبَّ وَجَدَّعَ وَحَلَفَ لَا يَطْعَمُهُ، فَاخْتَبَأْتُ أَنَا، فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ فَحَلَفَتِ الْمَرْأَةُ لَا تَطْعَمُهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ، فَحَلَفَ الضَّيْفُ أَوِ الْأَضْيَافُ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ أَوْ يَطْعَمُوهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَأَنَّ هَذِهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا فَجَعَلُوا لَا يَرْفَعُونَ لُقْمَةً إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا، فَقَالَ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا؟ فَقَالَتْ: وَقُرَّةِ عَيْنِي إِنَّهَا الْآنَ لَأَكْثَرُ قَبْلَ أَنْ نَأْكُلَ فَأَكَلُوا، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَنَّهُ أَكَلَ مِنْهَا".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے سلیمان ابن طرفان نے، ان سے ابوعثمان نہدی نے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا ایک مہمان یا کئی مہمان لے کر گھر آئے۔ پھر آپ شام ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے، جب وہ لوٹ کر آئے تو میری والدہ نے کہا کہ آج اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کھانا ان کے سامنے پیش کیا لیکن انہوں نے انکار کیا۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور انہوں نے (گھر والوں کی) سرزنش کی اور دکھ کا اظہار کیا اور قسم کھا لی کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو ڈر کے مارے چھپ گیا تو آپ نے پکارا کہ اے پاجی! کدھر ہے تو ادھر آ۔ میری والدہ نے بھی قسم کھا لی کہ اگر وہ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گی۔ اس کے بعد مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ غصہ کرنا شیطانی کام تھا، پھر آپ نے کھانا منگوایا اور خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھایا (اس کھانے میں یہ برکت ہوئی) جب یہ لوگ ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بھی بڑھ جاتا تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ہو رہا ہے، کھانا تو اور بڑھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک! اب یہ اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ جب ہم نے کھانا کھایا بھی نہیں تھا۔ پھر سب نے کھایا اور اس میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6141  
6141. حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک یا کئی مہمان لے کر گھر آئے، پھر آپ شام ہی سے نبی ﷺ کی خدمت میں چلے گئے۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو ان سے میری والدہ نے کہا: آج مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: کیا تم نے کھانا پیش کیا تھا لیکن انہوں نے کھانے سےانکار کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور اہل خانہ کو برا بھلا کہا: پھر قسم اٹھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تو (مارے ڈر کے) چھپ گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آواز دی: اے جاہل! (تو کدھر ہے؟) میری والدہ نے بھی قسم اٹھالی کہ اگر آپ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائے گی۔ ادھر مہمانوں نے بھی قسم اٹھالی کہ جب تک حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھانا نہیں کھائیں گے وہ (مہمان) بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6141]
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی زوجہ ام رومان بنی فراس قبیلے سے تھیں ان کا نام زینب تھا۔
حضرت امام بخاری کا منشائے باب یہ ہے کہ گاہے کوئی ایسا موقع ہو کہ میزبان سے مہمان ایسا لفظ کہہ دے کہ آپ جب تک ساتھ میں نہ کھائیں گے میں بھی نہیں کھاؤں گا تو اخلاقاً ایسا کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور بر عکس میزبان کے لئے بھی یہی بات ہے، بہر حال میزبان کا فرض ہے کہ حتی الامکان مہمان کا اکرام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور مہمان کا فرض ہے کہ میزبان کے گھر زیادہ ٹھہر کر اس کے لئے تکلیف کا موجب نہ بنے۔
یہ اسلامی آداب واخلاق وتمدن ومعاشرت کی باتیں ہیں، اللہ پاک ہرموقع پر ان کو معمول بنانے کی توفیق بخشے آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6141   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6141  
6141. حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک یا کئی مہمان لے کر گھر آئے، پھر آپ شام ہی سے نبی ﷺ کی خدمت میں چلے گئے۔ جب وہ لوٹ کر آئے تو ان سے میری والدہ نے کہا: آج مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا: کیا تم نے کھانا پیش کیا تھا لیکن انہوں نے کھانے سےانکار کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا اور اہل خانہ کو برا بھلا کہا: پھر قسم اٹھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں تو (مارے ڈر کے) چھپ گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے آواز دی: اے جاہل! (تو کدھر ہے؟) میری والدہ نے بھی قسم اٹھالی کہ اگر آپ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائے گی۔ ادھر مہمانوں نے بھی قسم اٹھالی کہ جب تک حضرت ابوبکر صدیق ؓ کھانا نہیں کھائیں گے وہ (مہمان) بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابو بکر رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6141]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ کھانا اللہ کے فضل و کرم سے تین گنا زیادہ ہو گیا۔
حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ہم وہ کھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو وہاں بہت سے لوگ جمع تھے کیونکہ ہمارا ایک قوم سے معاہدہ تھا جس کی مدت ختم ہو چکی تھی، وہاں بارہ سرکردہ لوگ تھے اور ہر سربراہ کے ساتھ بہت سے لوگ موجود تھے، ان کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے، بہرحال وہ بچا ہوا کھانا وہاں موجود تمام لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔
(صحیح البخاري،الأذان، حدیث: 602) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی موقع پر بے تکلفی کے انداز میں کوئی مہمان اپنے میزبان سے کہہ دے کہ آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں گے تو میں کھاؤں گا اور اس پر قسم اٹھا لے تو اخلاقاً ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس کے برعکس میزبان کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6141