صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
90. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ الشِّعْرِ وَالرَّجَزِ وَالْحُدَاءِ وَمَا يُكْرَهُ مِنْهُ:
باب: شعر، رجز اور حدی خوانی کا جائز ہونا۔
حدیث نمبر: 6149
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ وَمَعَهُنَّ أُمُّ سُلَيْمٍ، فَقَالَ:" وَيْحَكَ يَا أَنْجَشَةُ رُوَيْدَكَ سَوْقًا بِالْقَوَارِيرِ"، قَالَ أَبُو قِلَابَةَ فَتَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَلِمَةٍ لَوْ تَكَلَّمَ بِهَا بَعْضُكُمْ لَعِبْتُمُوهَا عَلَيْهِ قَوْلُهُ:" سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک سفر کے موقع پر) اپنی عورتوں کے پاس آئے جو اونٹوں پر سوار جا رہی تھیں، ان کے ساتھ ام سلیم رضی اللہ عنہا انس کی والدہ بھی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افسوس، انجشہ! شیشوں کو آہستگی سے لے چل۔ ابوقلابہ نے کہا کہ نبی کریم نے عورتوں سے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال فرمایا کہ اگر تم میں کوئی شخص استعمال کرے تو تم اس پر عیب جوئی کرو۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ شیشوں کو نرمی سے لے چل۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6149  
6149. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اپنی بعض بیویوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ حضرت ام سلیم ؓ بھی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا: اے انجشہ! تجھ پر افسوس ہو ان آبگینوں کو ذرا آہستگی سے لے کر چل۔ ابو قلابہ نے کہا: نبی ﷺ نے عورتوں کے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال فرمایا اگر تم سے کوئی شخص ان الفاظ کو استعمال کرے تو اسے معیوب خیال کرو، یعنی آپ ﷺ کا ارشاد: ان آبگینوں کو آہستگی سے لے کر چل۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6149]
حدیث حاشیہ:
شیشوں سے مراد عورتیں تھیں جو فی الواقع شیشے کی طرح نازک ہوتی ہیں، انجشہ نامی غلام اونٹوں کا چلانے والا بڑا خوش آواز تھا۔
اس کے گانے سے اونٹ مست ہو کر خوب بھاگ رہے تھے۔
آپ کو ڈر ہوا کہ کہیں عورتیں گر نہ جائیں، اس لئے فرمایا آہستہ لے چل۔
نکتہ چینی اس طور پر کہ عورتوں کو شیشے سے تشبیہ دی اور ان کو شیشے کی طرح نازک قرار دیا مگر یہ تشبیہ بہت عمدہ تھی۔
فی الحقیقت عورتیں ایسی ہی نازک ہوتی ہیں۔
صنف نازک پر یہ رحمۃ للعالمین کا احسان عظیم ہے کہ آپ نے ان کی کمزوری و نزاکت کا مردوں کو قدم قدم پر احساس کرایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6149   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6149  
6149. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اپنی بعض بیویوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ حضرت ام سلیم ؓ بھی تھیں آپ ﷺ نے فرمایا: اے انجشہ! تجھ پر افسوس ہو ان آبگینوں کو ذرا آہستگی سے لے کر چل۔ ابو قلابہ نے کہا: نبی ﷺ نے عورتوں کے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال فرمایا اگر تم سے کوئی شخص ان الفاظ کو استعمال کرے تو اسے معیوب خیال کرو، یعنی آپ ﷺ کا ارشاد: ان آبگینوں کو آہستگی سے لے کر چل۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6149]
حدیث حاشیہ:
(1)
انجشہ سیاہ فام حبشی نژاد ایک غلام تھا جو بڑی خوشی آوازی کے ساتھ حُدی پڑھتا اور اونٹوں کو چلاتا تھا۔
اس کی خوش الحانی سے متاثر ہو کر اونٹ مستی کے ساتھ دوڑ رہے تھے۔
ان اونٹوں پر خواتین تھیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ محسوس ہوا کہیں ایسا نہ ہو کہ عورتیں گر جائیں، اس لیے آپ نے فرمایا:
انہیں آہستہ لے کر چل۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی نازک مزاجی کی وجہ سے انہیں آبگینوں سے تشبیہ دی کیونکہ عورتیں اگر شکستہ دل ہو جائیں تو ان کا پھر طبعی حالت پر آنا بہت مشکل ہوتا ہے، جیسے شیشہ جلدی ٹوٹ جاتا ہے پھر درست نہیں ہوتا۔
چونکہ عورتوں کے دل کمزور ہوتے ہیں اور خوش الحانی سے جلدی متاثر ہو جاتے ہیں، گانا سننے کی طرف ان کا میلان بڑھ جاتا ہے اور گانا، ذہنی آوارگی کا پیش خیمہ ہوتا ہے، اس لیے آپ نے انجشہ کو تنبیہ فرمائی۔
(3)
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس صنف نازک پر بڑا احسان ہے کہ آپ نے ان کی کمزوری اور نزاکت کا مردوں کو قدم قدم پر احساس دلایا۔
حدیث کے آخر میں ابو قلابہ کی بات کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ مراتب پر فائز تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کا کلام زیب دیتا تھا۔
اگر عام شخص اس قسم کا استعارہ استعمال کرے تو تم اس پر عیب لگانا شروع کر دو گے۔
(فتح الباري: 669/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6149