صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
91. بَابُ هِجَاءِ الْمُشْرِكِينَ:
باب: مشرکوں کی ہجو کرنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 6150
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هِجَاءِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَكَيْفَ بِنَسَبِي"، فَقَالَ حَسَّانُ: لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِينِ، وَعَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: ذَهَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ، فَقَالَتْ:" لَا تَسُبُّهُ، فَإِنَّهُ كَانَ يُنَافِحُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا اور میرا خاندان تو ایک ہی ہے (پھر تو میں بھی اس ہجو میں شریک ہو جاؤں گا)۔ حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہجو سے آپ کو اس طرح صاف نکال دوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔ اور ہشام بن عروہ سے روایت ہے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو عائشہ رضی اللہ عنہا کی مجلس میں برا کہنے لگا تو انہوں نے کہا کہ حسان کو برا بھلا نہ کہو، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مشرکوں کو جواب دیتا تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6150  
6150. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت حسان بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مشرکین اور میرا خاندان تو ایک ہے) پھر میرے نسب کا کیا حال ہوگا؟ حضرت حسان ؓ نے کہا: میں آپ کو ان سے اس طرح نکالوں گا جیسے بال آٹے سے نکالا جاتا ہے۔ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں حضرت حسان بن ثابت ؓ کو سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس سب وشتم کرنے لگا تو انہوں نے فرمایا: حسان کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا کرتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6150]
حدیث حاشیہ:
مشرکوں کی ہجو کرتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف داری کرتا تھا۔
اس روایت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک نفسی اوردین داری اور پرہیز گاری معلوم ہوتی ہے۔
آپ کس درجہ کی پاک نفس اور فرشتہ خصلت تھیں۔
چونکہ حسان رضی اللہ عنہ نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف داری کی تھی اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو اپنی ایذا کا جو ان کی طرف سے پہنچی تھی کچھ خیال نہ کیا اور ان کو برا کہنے سے منع فرمایا۔
اللہ پاک مسلمانوں کو بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی نیک فطرت عطا فرمائے کہ وہ باہمی طور پر ایک دوسرے کی برائیاں کرنے سے باز رہیں۔
(آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6150   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6150  
6150. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت حسان بن ثابت ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (مشرکین اور میرا خاندان تو ایک ہے) پھر میرے نسب کا کیا حال ہوگا؟ حضرت حسان ؓ نے کہا: میں آپ کو ان سے اس طرح نکالوں گا جیسے بال آٹے سے نکالا جاتا ہے۔ ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں حضرت حسان بن ثابت ؓ کو سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس سب وشتم کرنے لگا تو انہوں نے فرمایا: حسان کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا کرتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6150]
حدیث حاشیہ:
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مداح تھے اور مشرکین کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ہجو و مذمت کا حملہ ہوتا وہ اس کا جواب دیتے تھے لیکن بد قسمتی سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے، اس لیے حضرت عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی، آپ انہیں اپنی مجلس میں کیوں بیٹھنے دیتی ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
وہ جیسا بھی ہے لیکن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتا تھا، اس حدیث سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک نفسی، دین پروری اور پرہیزگاری کا پتا چلتا ہے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ کی طرف سے انہیں جو تکلیف پہنچی تھی انہوں نے اس کی ذرا پروا نہ کی اور انہیں برا بھلا کہنے سے منع فرمایا۔
(فتح الباري: 671/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6150