صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
104. بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ:
باب: کسی کا یہ کہنا اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَيْنَاكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا
‏‏‏‏ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہم نے آپ پر اپنے باپوں اور ماؤں کو قربان کیا۔
حدیث نمبر: 6185
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ أَقْبَلَ هُوَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفِيَّةُ مُرْدِفُهَا عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمَّا كَانُوا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَثَرَتِ النَّاقَةُ، فَصُرِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمَرْأَةُ، وَأَنَّ أَبَا طَلْحَةَ قَالَ: أَحْسِبُ اقْتَحَمَ عَنْ بَعِيرِهِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ، هَلْ أَصَابَكَ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ عَلَيْكَ بِالْمَرْأَةِ" فَأَلْقَى أَبُو طَلْحَةَ ثَوْبَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَقَصَدَ قَصْدَهَا، فَأَلْقَى ثَوْبَهُ عَلَيْهَا، فَقَامَتِ الْمَرْأَةُ، فَشَدَّ لَهُمَا عَلَى رَاحِلَتِهِمَا، فَرَكِبَا فَسَارُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِظَهْرِ الْمَدِينَةِ، أَوْ قَالَ أَشْرَفُوا عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ"، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُهَا حَتَّى دَخَلَ الْمَدِينَةَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ وہ اور ابوطلحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ منورہ کے لیے) روانہ ہوئے۔ ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ کے پیچھے تھیں، راستہ میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسل گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین گر گئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے ابوطلحہ نے اپنی سواری سے فوراً اپنے کو گرا دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کیا: یا نبی اللہ! اللہ آپ پر مجھے قربان کرے کیا آپ کو کوئی چوٹ آئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، البتہ عورت کو دیکھو۔ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لیا، پھر ام المؤمنین کی طرف بڑھے اور اپنا کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہو گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین کے لیے ابوطلحہ نے پالان مضبوط باندھا۔ اب آپ نے سوار ہو کر پھر سفر شروع کیا، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے (یا یوں کہا کہ مدینہ دکھائی دینے لگا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «آيبون تائبون،‏‏‏‏ عابدون لربنا حامدون» ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور اس کی حمد بیان کرتے ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے برابر کہتے رہے یہاں تک کہ مدینہ میں داخل ہو گئے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6185  
6185. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے جبکہ ام المومنین صفیہ‬ ؓ ر‬سول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھی تھیں راستے میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی ﷺ نےاپنے اونٹ سئ چھلانگ لگائی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: اللہ کے نبی! اللہ تعالٰی مجھے آپ پر فدا کرے! کیا چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں لیکن عورت کا پتہ کرو چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا، پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے اور وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہوگئیں پھر انہوں نے دونوں کے لیے پالانن مضبوط کرکے باندھا تو وہ سوار ہوکر پھر چل پڑے حتیٰ کہ جب ہو مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے یا مدینہ طیبہ پر ان کی نظر پڑی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد وثنا کرنے والے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6185]
حدیث حاشیہ:
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس حالت میں دیکھ کر از راہ تعظیم لفظ جعلني اللہ فداك (اللہ مجھ کو آپ پر قربان کرے)
بولا۔
جس کو آپ نے ناپسند نہیں فرمایا۔
اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
مدینہ منورہ خیریت سے واپسی پر آپ نے آئبون تائبون الخ کے الفاظ استعمال فرمائے۔
اب بھی سفر سے وطن بخیریت واپسی پر ان الفاظ کا ورد کرنا مسنون ہے۔
خاص طور پر حاجی لوگ جب وطن پہنچیں تو یہ دعا پڑھتے ہوئے اپنے شہر یا بستی میں داخل ہوں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6185   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6185  
6185. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت ابو طلحہ ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے جبکہ ام المومنین صفیہ‬ ؓ ر‬سول اللہ ﷺ کی سواری پر پیچھے بیٹھی تھیں راستے میں کسی جگہ اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی ﷺ نےاپنے اونٹ سئ چھلانگ لگائی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: اللہ کے نبی! اللہ تعالٰی مجھے آپ پر فدا کرے! کیا چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں لیکن عورت کا پتہ کرو چنانچہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے چہرے پر کپڑا ڈال لیا، پھر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے اور وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ اس کے بعد وہ کھڑی ہوگئیں پھر انہوں نے دونوں کے لیے پالانن مضبوط کرکے باندھا تو وہ سوار ہوکر پھر چل پڑے حتیٰ کہ جب ہو مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے یا مدینہ طیبہ پر ان کی نظر پڑی تو نبی ﷺ نے فرمایا: ہم لوٹنے والے ہیں توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد وثنا کرنے والے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6185]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:
اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے! اگر ایسا کہنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے منع فرما دیتے۔
ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی اپنے سے بڑے صاحب علم و فضل کو عزت افزائی کے لیے کہے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ثواب بھی دے گا کیونکہ یہ اس توقیر و احترام سے ہے جس کا شریعت نے ہمیں حکم دیا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث ذکر کی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لیے گئے تو انہوں نے کہا:
اللہ کے رسول! آپ کا کیا حال ہے؟ اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابھی تک تم نے اپنی بدویت کو نہیں چھوڑا۔
(شعب الإیمان للبیهقي: 459/6، رقم: 8892)
لیکن یہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح روایات کے مقابلے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔
اگر صحیح بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو اس طرح کے کلمات نہیں کہنے چاہئیں بلکہ اس کے لیے انس و نرمی اور دعائے شفا کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 698/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6185