صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
110. بَابُ تَسْمِيَةِ الْوَلِيدِ:
باب: بچے کا نام ولید رکھنا۔
حدیث نمبر: 6200
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ:" اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَالْمُسْتَضْعَفِينَ بِمَكَّةَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر مبارک رکوع سے اٹھایا تو یہ دعا کی «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام،‏‏‏‏ وعياش بن أبي ربيعة،‏‏‏‏ والمستضعفين بمكة» اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ میں دیگر موجود کمزور مسلمانوں کو نجات دیدے۔ «اللهم اشدد وطأتك على مضر،‏‏‏‏ اللهم اجعلها عليهم سنين كسني يوسف» اے اللہ! قبیلہ مضر کے کفاروں کو سخت پکڑ، اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ جیسا قحط نازل فرما۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1074  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف علیہ السلام (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1074]
1074۔ اردو حاشیہ:
➊ الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ قنوت نازلہ ہے جو آپ ہمیشہ نہیں فرماتے تھے۔
➋ یوسف علیہ السلام کے قحط سے تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی سال جاری رہا اور ایسا ہی ہوا، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، ان پر قحط سالی آئی اور مضر والے کئی برس تک قحط کی بلا میں گرفتار رہے یہاں تک کہ وہ ہڈیاں، چمڑے اور مردار تک کھانے لگے۔ پھر جب قریش اس قحط سے عاجز آگئے تو ان کا نمائندہ اور سردار ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے کے لیے دعا کی اپیل کی تو نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پر قحط کے خاتمے کی دعا فرما دی اور قحط دور ہو گیا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1007]
➌ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ جائز ہے۔
➍ قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہو گی۔
➎ کسی کا نام لے کے دعا یا بددعا کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ احناف کا موقف ہے۔
➏ قنوت نازلہ بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ آپ بلند آواز سے قنوت کراتے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4560] نیز سنن أبي داود کی روایت میں ہے: «يُؤَمِّنُ مَن خَلفَه» آپ کے پیچھے والے آمین کہتے تھے۔ [سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1443]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1244  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف» اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قنوت نازلہ آخری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے۔

(2)
اس میں امام بلند آواز سے مناسب دعایئں کرتا ہے۔

(3)
قنوت نازلہ میں مظلوم مسلمانوں کا نام لے کر ان کے حق میں اور کافروں کا نام لے کر ان کے خلاف دعا کی جا سکتی ہے۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، التفسیر، باب ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ﴾ حدیث: 4560 وصحیح المسلم، المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات۔
۔
۔
، حدیث: 675)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1244   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6200  
6200. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو یہ دعا فرمائی: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابو ربیعہ اور مکہ میں موجود ناتواں مسلمانوں کو نجات سے۔ اے اللہ! مضر کے کفار ہر سختی کر۔ اے اللہ! ان پر یوسف ؑ کے زمانے جیسا قحط نازل فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6200]
حدیث حاشیہ:
یہ تینوں حضرات مذکورین مغیرہ مخزومی کے خاندان سے ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے۔
کفار نے ان کو ہجرت سے روک کر مقید کر دیا تھا۔
ولید بن ولید حضرت خالد بن ولید کے بھائی ہیں۔
سلمہ بن ہشام ابو جہل کے بھائی ہیں جو قدیم الاسلام ہیں اور عیاش بن ابی ربیعہ ماں کی طرف سے ابو جہل کے بھائی ہیں۔
مضر قبیلہ قریش سے ایک قبیلہ تھا جس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا فرمائی تھی۔
اس حدیث سے ولید نام رکھنا جائز ثابت ہوا۔
باب سے یہی مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6200   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6200  
6200. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو یہ دعا فرمائی: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابو ربیعہ اور مکہ میں موجود ناتواں مسلمانوں کو نجات سے۔ اے اللہ! مضر کے کفار ہر سختی کر۔ اے اللہ! ان پر یوسف ؑ کے زمانے جیسا قحط نازل فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6200]
حدیث حاشیہ:
(1)
کتب حدیث میں مروی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید نام کو پسند نہیں کیا بلکہ اسے تبدیل کیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے ہاں ایسی تمام روایات معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں بلکہ انہوں نے اس نام کا جواز ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ولید بن ولید رضی اللہ عنہ کے لیے نماز میں دعا کرتے تھے، پھر جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام تبدیل نہیں کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ولید نام رکھنے میں کوئی خرابی اور حرج نہیں۔
(2)
بہرحال ولید نام رکھا جا سکتا ہے اور اس کی ممانعت سے متعلق جتنی روایات ہیں وہ صحیح نہیں بلکہ سخت ضعیف ہیں۔
(فتح الباري: 711/10، 712)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6200