صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ -- کتاب: اخلاق کے بیان میں
123. بَابُ الْحَمْدِ لِلْعَاطِسِ:
باب: چھینکنے والے کا الحمدللہ کہنا۔
حدیث نمبر: 6221
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: عَطَسَ رَجُلَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ فَقِيلَ لَهُ، فَقَالَ:" هَذَا حَمِدَ اللَّهَ، وَهَذَا لَمْ يَحْمَدِ اللَّهَ".
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو اصحاب چھینکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کا جواب یرحمک اللہ (اللہ تم پر رحم کرے) سے دیا اور دوسرے کا نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا کہ اس نے الحمدللہ کہا تھا (اس لیے اس کا جواب دیا) اور دوسرے نے الحمدللہ نہیں کہا تھا۔ چھینکنے والے کو الحمدللہ ضرور کہنا چاہئے اور سننے والوں کو یرحمک اللہ۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2742  
´چھینکنے والے کے «الحمد للہ» کہنے پر «یرحمک اللہ» کہہ کر دعا کرنا واجب ہے۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر «يرحمك الله» کہہ کر دعا دی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی چھینک پر «یرحمک اللہ» کہہ کر دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (چھینک آئی تو) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور (تجھے چھینک آئی تو) تم نے اس کی حمد نہ کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2742]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر جو سنت کے مطابق (اَلْحَمْدُلِلہ) کہے وہی دعائے خیرکا مستحق ہے (اَلْحَمْدُلِلہ) نہ کہنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت نہیں،
یہ اور بات ہے کہ مسئلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں چھینکنے والے کو سمجھا دینا چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2742   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6221  
6221. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی۔ آپ ﷺ نے ایک کی چھینک کا جواب دیا اور دوسرے کی چھینک کا جواب نہ دیا۔ آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس نے الحمد للہ کہا تھا اور دوسرے نے الحمد للہ نہیں کہا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6221]
حدیث حاشیہ:
(1)
چھینک مارنے والا الحمدللہ کہنے کے بعد ہی جواب کا مستحق ہوتا ہے۔
ایک آدمی نے الحمدللہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا اور دوسرے نے اس سے پہلوتہی کی تو اس کا آپ نے جواب نہ دیا۔
(2)
چھینک صحت، مزاج اور دماغ کی صفائی کا موجب ہے، اس پر اللہ کا شکر، یعنی الحمدللہ کہنا مسنون ہے اور سننے والے کو اس کا جواب دینا، اس لیے دعا کرنا اور اسے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ واجبات و حقوق کی ادائیگی کے باعث تو اس عطیے کا حق دار ہوا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6221