صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
1. بَابُ بَدْءِ السَّلاَمِ:
باب: سلام کے شروع ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6227
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ هَمَّامٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ، طُولُهُ سِتُّونَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا خَلَقَهُ قَالَ اذْهَبْ فَسَلِّمْ عَلَى أُولَئِكَ النَّفَرِ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ جُلُوسٌ، فَاسْتَمِعْ مَا يُحَيُّونَكَ، فَإِنَّهَا تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ ذُرِّيَّتِكَ. فَقَالَ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ. فَقَالُوا السَّلاَمُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. فَزَادُوهُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَكُلُّ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ آدَمَ، فَلَمْ يَزَلِ الْخَلْقُ يَنْقُصُ بَعْدُ حَتَّى الآنَ» .
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: السلام علیکم! فرشتوں نے جواب دیا، السلام علیک ورحمۃ اللہ، انہوں نے آدم کے سلام پر ورحمۃ اللہ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گا۔ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6227  
6227. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ؑ کو ان کی صورت پر بنایا۔ ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کیا تو فرمایا: جاؤ ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدمی ؑ نے کہا: ''السلام علیکم'' انہوں نے جواب دیا:''السلام علیکم ورحمة اللہ'' انہوں نے حضرت آدم ؑ کے سلام پر''ورحمة اللہ'' کا اضافہ کیا۔ اب جو شخص بھی جنت میں جائے گا وہ آدم کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔ اس کے بعد اس کے بعد خلقت کا قد کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6227]
حدیث حاشیہ:
ممکن ہے کہ آئندہ اور کم ہو جائے یہ زیادتی اور کمی ہزاروں برس میں ہوتی ہے۔
انسان اس کو کیا دیکھ سکتا ہے۔
جو لوگ اس قسم کی احادیث میں شبہ کرتے ہیں ان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت آدم کی صحیح تاریخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے تو معلوم نہیں کہ حضرت آدم کو کتنے برس گزر چکے ہیں۔
نہ یہ معلوم ہے کہ آئندہ دنیا کتنے برس اور رہے گی اس لئے قد وقامت کا کم ہو جانا قابل انکار نہیں۔
''خلق اللہ آدم علی صورته'' کی ضمیر آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ سکتی ہے یعنی آدم کی صور ت پر جو اللہ کے علم میں تھی۔
بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ آدم پیدائش سے اسی صورت پر تھے جس صورت پر ہمیشہ رہے یعنی یہ نہیں ہوا کہ پیدا ہوتے وقت وہ چھوٹے بچے ہوں پھر بڑے ہوئے ہوں جیسا ان کی اولاد میں ہوتا ہے۔
بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے مگر یہ آیت ﴿لَیسَ کَمِثلِهِ شيئ﴾ کے خلاف ہوگا۔
واللہ أعلم بالصواب وآمنا باللہ وبرسوله صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6227   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6227  
6227. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے حضرت آدم ؑ کو ان کی صورت پر بنایا۔ ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کیا تو فرمایا: جاؤ ان بیٹھے ہوئے فرشتوں کو سلام کرو اور سنو وہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیونکہ وہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدمی ؑ نے کہا: ''السلام علیکم'' انہوں نے جواب دیا:''السلام علیکم ورحمة اللہ'' انہوں نے حضرت آدم ؑ کے سلام پر''ورحمة اللہ'' کا اضافہ کیا۔ اب جو شخص بھی جنت میں جائے گا وہ آدم کی صورت کے مطابق ہوکر جائے گا۔ اس کے بعد اس کے بعد خلقت کا قد کم ہوتا گیا۔ اب تک ایسا ہی ہو رہا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6227]
حدیث حاشیہ:
(1) (خلق الله آدم علی صورته)
کے دو مفہوم حسب ذیل ہیں:
٭ حضرت آدم علیہ السلام پیدائش سے اسی شکل و صورت پر تھے جس صورت پر وہ ہمیشہ رہے۔
ایسا نہیں ہوا کہ پیدائش کے وقت وہ چھوٹے ہوں پھر آہستہ آہستہ بڑے ہوتے گئے جیسا کہ ان کی اولاد میں ہوتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی ذاتی صورت پر پیدا کیا جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم میں سے کوئی دوسرے کو مارے تو اس کے چہرے پر مارنے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔
(مسند أحمد: 251/2)
اس کی تائید ایک دوسری روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
چہروں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ آدم کو رحمٰن کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے۔
(السنة لابن أبي عاصم، حدیث: 517)
یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے، تاہم تائید میں پیش کی جا سکتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ''صورة الرحمٰن'' کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد صفت رحمٰن ہے۔
(فتح الباري: 6/11)
لیکن یہ طریقہ اسلاف کے منہج کے خلاف ہے۔
سلف کے نزدیک کسی قسم کی تاویل کرنے تکییف اور تمثیل، یعنی کیفیت بیان کرنے یا مخلوق کی صورت کے مشابہ قرار دینے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے لیے صفت صورت ثابت ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔
(فتح الباري: 226/5)
اللہ تعالیٰ کی توحید اسماء و صفات کے متعلق مکمل بحث ہم نے آگے کتاب التوحید میں کی ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے سلام کی ابتدا ثابت کی ہے کہ اس کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا۔
بہرحال بوقت ملاقات ''السلام علیکم'' سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہے۔
اگر ملنے والے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ان میں محبت و اخوت یا قرابت کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمے میں محبت و مسرت اور اکرام و احترام کا پورا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف نہیں تو یہ کلمہ اعتماد و خیر سگالی کا ذریعہ بنتا ہے اور اس کے ذریعے سے ہر ایک دوسرے کو اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور ہمارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6227