صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
8. بَابُ إِفْشَاءِ السَّلاَمِ:
باب: سلام کو زیادہ رواج دینا۔
حدیث نمبر: 6235
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ: بِعِيَادَةِ الْمَرِيضِ، وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، وَنَصْرِ الضَّعِيفِ، وَعَوْنِ الْمَظْلُومِ، وَإِفْشَاءِ السَّلَامِ، وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ، وَنَهَى عَنِ الشُّرْبِ فِي الْفِضَّةِ، وَنَهَانَا عَنْ تَخَتُّمِ الذَّهَبِ، وَعَنْ رُكُوبِ الْمَيَاثِرِ، وَعَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ، وَالدِّيبَاجِ، وَالْقَسِّيِّ، وَالْإِسْتَبْرَقِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے شیبانی نے، ان سے اشعث بن ابی الشعثاء نے، ان سے معاویہ بن سوید بن مقرن نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا۔ بیمار کی مزاج پرسی کرنے کا، جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینکنے والے کے جواب دینے کا۔ کمزور کی مدد کرنے کا، مظلوم کی مدد کرنے کا، افشاء سلام (سلام کا جواب دینے اور بکثرت سلام کرنے) کا، قسم (حق) کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے برتن میں پینے سے منع فرمایا تھا اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے ہمیں منع فرمایا تھا۔ میثر (ریشم کی زین) پر سوار ہونے سے، ریشم اور دیباج پہننے، قسی (ریشمی کپڑا) اور استبرق پہننے سے (منع فرمایا تھا)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6235  
6235. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا بیمار کی تیمارداری کرنے کا جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینک لینے والے کو جواب دینے کا ناتواں کی مدد کرنے کا، مظلوم کی داد رسی کرنے کا بکثرت سلام کہنے کا اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا، نیزآپ نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں پانی پینے، سونے کی انگوٹھی پہننے، ریشم کی زین پر سوار ہونے، ریشم اور دیبا پہننے، باریک اور موٹا ریشم زیب تن کرنے سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6235]
حدیث حاشیہ:
یہ سماجی شرعی آداب ہیں جن کا ملحوظ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6235   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6235  
6235. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا تھا بیمار کی تیمارداری کرنے کا جنازے کے پیچھے چلنے کا، چھینک لینے والے کو جواب دینے کا ناتواں کی مدد کرنے کا، مظلوم کی داد رسی کرنے کا بکثرت سلام کہنے کا اور قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنے کا، نیزآپ نے ہمیں چاندی کے برتنوں میں پانی پینے، سونے کی انگوٹھی پہننے، ریشم کی زین پر سوار ہونے، ریشم اور دیبا پہننے، باریک اور موٹا ریشم زیب تن کرنے سے منع فرمایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6235]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں سلام کو عام کرنے کا حکم ہے کیونکہ اس سے اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا ہے لیکن جب کوئی شخص قضائے حاجت میں مصروف ہو تو اسے سلام نہیں کہنا چاہیے۔
حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں سلام کیا جب آپ پیشاب کے لیے بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
(جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: 90) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سلام نہیں کرنا چاہیے اور اگر کوئی جہالت کی بنا پر سلام کہہ دے تو اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح آہستہ اور احتیاط سے سلام کہتے تھے کہ بیدار آدمی اسے سن لیتا اور سونے والا اس سے بیدار نہ ہوتا۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5362(2055)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کرنے والے کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے سلام سے کسی سونے والے کی آنکھ نہ کھل جائے یا اس سے کسی دوسرے کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے۔
(3)
بہرحال سلام کہنا ایک اسلامی شعار ہے۔
اسے خوب پھیلانا چاہیے اور ایسی کثرت سے رواج دیا جائے کہ اسلامی دنیا کی فضا اس کی دلربا آواز سے گونج اٹھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سلام کو عام کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جب انسان کسی ایسے گھر میں جائے جہاں کوئی بھی نہیں ہے تو اپنے آپ کو سلام کہہ کر اس میں داخل ہو۔
(فتح الباري: 25/11)
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6235