صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
13. بَابُ التَّسْلِيمِ وَالاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثًا:
باب: سلام اور اجازت تین مرتبہ ہونی چاہئے۔
حدیث نمبر: 6245
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ، إِذْ جَاءَ أَبُو مُوسَى كَأَنَّهُ مَذْعُورٌ، فَقَالَ: اسْتَأْذَنْتُ عَلَى عُمَرَ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، فَرَجَعْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ؟ قُلْتُ: اسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، فَرَجَعْتُ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ، فَلْيَرْجِعْ"، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَتُقِيمَنَّ عَلَيْهِ بِبَيِّنَةٍ أَمِنْكُمْ أَحَدٌ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ: وَاللَّهِ لَا يَقُومُ مَعَكَ، إِلَّا أَصْغَرُ الْقَوْمِ، فَكُنْتُ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقُمْتُ مَعَهُ، فَأَخْبَرْتُ عُمَرَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَلِكَ، وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ، بِهَذَا.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا ان سے بسر بن سعید اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے جیسے گھبرائے ہوئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت چاہی لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا، اس لیے واپس چلا آیا (عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا) تو انہوں نے دریافت کیا کہ (اندر آنے میں) کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا کہ میں نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی اور جب مجھے کوئی جواب نہیں ملا تو واپس چلا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت چاہے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جانا چاہئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ! تمہیں اس حدیث کی صحت کے لیے کوئی گواہ لانا ہو گا۔ (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے مجلس والوں سے پوچھا) کیا تم میں کوئی ایسا ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہو؟ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ (اس کی گواہی دینے کے سوا) جماعت میں سب سے کم عمر شخص کے کوئی اور نہیں کھڑا ہو گا۔ ابوسعید نے کہا اور میں ہی جماعت کا وہ سب سے کم عمر آدمی تھا میں ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو گیا اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے۔ اور ابن مبارک نے بیان کیا کہ مجھ کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انہوں نے بسر بن سعید سے، کہا میں نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے سنا پھر یہی حدیث نقل کی۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 482  
´کسی کے گھر جانے کے آداب`
«. . . 527- وعن الثقة عنده عن بكير بن الأشج عن بسر بن سعيد عن أبى سعيد الخدري عن أبى موسى الأشعري أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الاستئذان ثلاث، فإن أذنوا لك فادخل، وإلا فارجع. . . .»
. . . سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اجازت لینا تین دفعہ ہے، اگر وہ (گھر والے) اجازت دیں تو اندر داخل ہو جاؤ ورنہ لوٹ جاؤ۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 482]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه ابوالقاسم الجوهري فى مسند الموطأ 846، من حديث مالك به وله شواهد عند البخاري 6245، ومسلم 2153، وغيرهما وهو بها صحيح]

تفقه:
➊ اگر کوئی شخص کسی رشتہ دار یا دوست وغیرہ کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو پہلے تین دفعہ اجازت مانگے، اجازت ملنے کے بعد ہی وہ گھر میں داخل ہو سکتا ہے لیکن یاد رہے کہ اپنے ذاتی گھر میں داخل ہونے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اِلا یہ کہ کوئی عذر شرعی ہو۔
➋ روایتِ مذکورہ میں ثقہ سے مراد مخرمہ بن بکیر بن عبداللہ بن الاشبح ہیں جو عام طور پر اپنے والد کی کتاب سے روایت کرتے تھے اور کتاب سے روایت قول راجح میں صحیح ہوتی ہے اِلا یہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل ثابت ہو جائے۔
➌ دینِ اسلام میں ہر انسان کی عزت اور شخصی زندگی کا تحفظ بدرجہ اتم موجود ہے۔
➍ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں اجازت اور انہیں سلام کہنے کے بغیر داخل نہ ہو جاؤ، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم نصیحت پکڑتے ہو۔ [سورة النور: 27] درج بالا حدیث اس آیت کریمہ کی تشریح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 527   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6245  
6245. حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ اچانک وہاں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تشریف لائے گویا وہ گھبرائے ہوئے تھے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا۔ اب انہوں نے دریافت کیا ہے تمہارے لیے اندر آنے میں کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا: میں نے تین بار اجازت مانگی تھی، مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہیں اس حدیث کے متعلق کوئی گواہ پیش کرنا ہوگا۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے یہ حدیث نبی ﷺ سے سنی ہو؟ حضرت ابی کعب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ اس قوم کا سب سے چھوٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6245]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس گواہی کے بعد فورا اس حدیث کو تسلیم کر لیا۔
مومن کی شان یہی ہونی چاہئے رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
پس بسر کا سماع ابو سعید سے ثابت ہوا اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ایک راوی کی روایت بھی جب وہ ثقہ ہو حجت ہے اور قیاس کو اس کے مقابل ترک کرد ین گے۔
اہل حدیث کا یہی قول ہے۔
بعض نسخوں میں یہ عبارت زائد ہے قال أبو عبد اللہ أراد عمر أن تبثت التثبت لأن لا یجیز خبر الواحد یعنی امام بخاری نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ابو موسی سے گواہ لانے کو کہا تو ان کا مطلب یہ تھا کہ حدیث کی اور زیادہ مضبوطی ہو جائے یہ سبب نہیں تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک صحابی کی روایت کردہ حدیث کو صحیح نہں سمجھتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6245   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6245  
6245. حضرت ابو خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں انصار کی ایک مجلس میں تھا کہ اچانک وہاں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ تشریف لائے گویا وہ گھبرائے ہوئے تھے انہوں نے کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاں تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت طلب کی لیکن مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا۔ اب انہوں نے دریافت کیا ہے تمہارے لیے اندر آنے میں کیا بات مانع تھی؟ میں نے کہا: میں نے تین بار اجازت مانگی تھی، مجھے اجازت نہ دی گئی تو میں واپس چلا آیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جب تم میں سے کوئی کسی سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہیں اس حدیث کے متعلق کوئی گواہ پیش کرنا ہوگا۔ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس نے یہ حدیث نبی ﷺ سے سنی ہو؟ حضرت ابی کعب ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ اس قوم کا سب سے چھوٹا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6245]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ دروازے کے ایک طرف کھڑے ہو کر تین مرتبہ سلام کہے، پھر اجازت طلب کرے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الأدب،حدیث: 5186)
دستک کے جواب میں دستک دینے والا اپنا نام یا عرف بتائے ''میں، میں'' کہنا خلاف ادب اور ناکافی تعارف ہے۔
دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بے ادبی اور بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
اگر اجازت یا جواب نہ ملے تو بلاوجہ ناراض ہونے کے بجائے واپس آ جانا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے واقعے سے معلوم ہوتا ہے۔
(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی بھی برموقع تھی تاکہ لوگ یقین و اعتماد کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کچھ منسوب نہ کرنے لگیں اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی کمی کا اعتراف کیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونے والے مناقشے کی تلافی بھی فرما دی تھی، چنانچہ انہوں نے فرمایا:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مجھ سے مخفی رہا ہے، ہاں مجھے بازار کے تجارتی مشاغل نے مصروف رکھا، بہرحال اے ابو موسیٰ! تم جب چاہو سلام کہہ کر آ جایا کرو اور اجازت نہ مانگا کرو۔
(سنن أبي داود، الأدب:
حدیث: 5182)
(3)
ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفے میں لوگ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کھڑے رہتے تھے جب وہ کوفہ کے گورنر تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس انداز سے ان کی تربیت کرنا چاہی کہ جس طرح تجھے باہر کھڑا رہنے سے تکلیف ہوئی ہے اسی طرح تجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس کرنا چاہیے۔
(الأدب المفرد، حدیث: 1073)
اس کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت اپنے خلافت کے معاملات میں مصروف بھی تھے۔
(فتح الباري: 35/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6245