صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
15. بَابُ التَّسْلِيمِ عَلَى الصِّبْيَانِ:
باب: بچوں کو سلام کرنا۔
حدیث نمبر: 6247
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
ہم سے علی بن الجعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں سیار نے انہوں نے ثابت بنانی سے روایت کی، انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ آپ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6247  
6247. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ نبی ﷺ بھی ایسا کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6247]
حدیث حاشیہ:
(1)
بچوں کو سلام کہنے میں بڑے آدمی کے لیے کوئی ہتک والی بات نہیں بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کا ایک حصہ اور ان کے ساتھ انس و پیار کا اظہار ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے پاس سے گزرے جبکہ وہ کھیل رہے تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5202)
بلکہ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی ملاقات کے لیے جاتے تو ان کے بچوں کو سلام کہتے اور ان کے سروں پر محبت بھرا ہاتھ پھیرتے، نیز ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرماتے۔
(السنن الکبریٰ للنسائي، حدیث: 8349) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو خوبصورت بچے کو سلام نہ کرے خاص طور پر جب وہ نوخیز اور اکیلا ہو۔
(فتح الباري: 41/11)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مدرسے میں زیر تعلیم بچوں کو سلام کہتے تھے۔
(الأدب المفرد، حدیث: 1044)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6247