صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
16. بَابُ تَسْلِيمِ الرِّجَالِ عَلَى النِّسَاءِ، وَالنِّسَاءِ عَلَى الرِّجَالِ:
باب: مردوں کا عورتوں کو سلام کرنا اور عورتوں کا مردوں کو۔
حدیث نمبر: 6248
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ:" كُنَّا نَفْرَحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، قُلْتُ: وَلِمَ، قَالَ: كَانَتْ لَنَا عَجُوزٌ تُرْسِلُ إِلَى بُضَاعَةَ، قَالَ ابْنُ مَسْلَمَةَ: نَخْلٍ بِالْمَدِينَةِ، فَتَأْخُذُ مِنْ أُصُولِ السِّلْقِ، فَتَطْرَحُهُ فِي قِدْرٍ وَتُكَرْكِرُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ، فَإِذَا صَلَّيْنَا الْجُمُعَةَ انْصَرَفْنَا وَنُسَلِّمُ عَلَيْهَا، فَتُقَدِّمُهُ إِلَيْنَا، فَنَفْرَحُ مِنْ أَجْلِهِ، وَمَا كُنَّا نَقِيلُ وَلَا نَتَغَدَّى إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی حازم نے ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہ ہم جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کی کس لیے؟ فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ جایا کرتی تھیں۔ ابن سلمہ نے کہا کہ بضاعہ مدینہ منورہ کا کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر وہ وہاں سے چقندر لایا کرتی تھیں اور اسے ہانڈی میں ڈالتی تھیں اور جَو کے کچھ دانے پیس کر (اس میں ملاتی تھیں) جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے آتے اور وہ یہ چقندر کی جڑ میں آٹا ملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے اور قیلولہ یا دوپہر کا کھانا ہم جمعہ کے بعد کرتے تھے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6248  
6248. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم جمعہ کے دن بہت خوش ہوتے تھے۔ میں نے پوچھا: کیوں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ کی طرف کسی کو بھیجا کرتی تھیں، بضاعہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کا ایک داغ تھا، پھر وہ وہاں سے چقندر منگواتیں اور انہیں ہانڈی میں ڈال کر ان میں جو کے دانے پیس کر ملاتیں۔ جب ہم جمعہ پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے کے لیے آتے۔ وہ ہمیں اپنا تیار کردہ کھانا پیش کرتیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن بہت خوش ہوتے تھے۔ ہم جمعہ کی نماز کے بعد ہی دوپہر کا کھانا کھاتے اور آرام کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6248]
حدیث حاشیہ:
سلام عام کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ مرد حضرات عورتوں کو بھی سلام کریں جیسا کہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کے حوالے سے ہم نے بیان کیا ہے اور عورتیں مردوں کو سلام کہیں جیسا کہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تھا۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6158)
حالانکہ آپ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے لیے غیر محرم تھے، تاہم فتنہ و فساد سے خود کو محفوظ رکھنا بھی بہت ضروری ہے، اس لیے اگر کسی فتنے کا اندیشہ ہو تو عورتوں کو سلام کہنے سے پرہیز کیا جائے بصورت دیگر سلام پھیلانے کا تقاضا یہی ہے کہ مرد، عورتوں کو اور عورتیں، مردوں کو سلام کریں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6248