صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
28. بَابُ الأَخْذِ بِالْيَدَيْنِ:
باب: دونوں ہاتھ پکڑنا۔
وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ"
‏‏‏‏ اور حماد بن زید نے ابن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
حدیث نمبر: 6265
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَيْفٌ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ:" عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْهِ التَّشَهُّدَ، كَمَا يُعَلِّمُنِي السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَهُوَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا، فَلَمَّا قُبِضَ، قُلْنَا السَّلَامُ"، يَعْنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سیف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن بخرہ ابومعمر نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس وقت میرا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا (اس طرح سکھایا) جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ «التحيات لله والصلوات والطيبات،‏‏‏‏ السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته،‏‏‏‏ السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين،‏‏‏‏ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏.‏» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حیات تھے۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو ہم (خطاب کا صیغہ کے بجائے) اس طرح پڑھنے لگے «السلام‏.‏ على النبي» یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6265  
´دونوں ہاتھ پکڑنا`
«. . . وَصَافَحَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، ابْنَ الْمُبَارَكِ بِيَدَيْهِ . . .»
. . . ‏‏‏‏ اور حماد بن زید نے ابن مبارک سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: Q6265]

«. . . سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ:" عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَفِّي بَيْنَ كَفَّيْهِ التَّشَهُّدَ، كَمَا يُعَلِّمُنِي السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَهُوَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْنَا، فَلَمَّا قُبِضَ، قُلْنَا السَّلَامُ"، يَعْنِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . ‏‏‏‏میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس وقت میرا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیوں کے درمیان میں تھا (اس طرح سکھایا) جس طرح آپ قرآن کی سورت سکھایا کرتے تھے۔ «التحيات لله والصلوات والطيبات،‏‏‏‏ السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته،‏‏‏‏ السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين،‏‏‏‏ أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله‏.‏» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حیات تھے۔ جب آپ کی وفات ہو گئی تو ہم (خطاب کا صیغہ کے بجائے) اس طرح پڑھنے لگے «السلام‏.‏ على النبي» یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: 6265]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6265 کا باب: «بَابُ الأَخْذِ بِالْيَدَيْنِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں «باليدين» کا ذکر ہے، جبکہ کئی نسخوں میں «باليدين» کا ذکرنہیں ہے، یعنی صحیح بخاری کے نسخے اس بابت متفق نہیں ہیں، بعض میں بالیدین بصیغہ تثنیہ وارد ہوا ہے اور بعض نسخوں میں بالید بصیغہ واحد، ابوزر اور مستملی کے نسخہ کے مطابق بصیغہ واحد مذکور ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بایں الفاظ میں لکھا ہے:
«(باب الأخذ باليد) كذا فى رواية أبى زر عن الحموي والمستملي، وللباقين باليدين و فى نسخة باليمين و هو غلط.» (2)
(ایک ہاتھ سے مصافہ کرنا) «باب الأخذ باليد» یہ ترجمۃ الباب ابوزر کی حموی اور المستملی سے نقل صحیح ہے، اور باقیوں کے ہاں (بالیدین)، اور ایک نسخہ میں (بالیمین) ہے جو کہ غلط ہے۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«و أورد فيه حديث ابن مسعود المذكور مطولا موصولا فمراده بهذا الباب: أن هذا الفعل الصادر من النبى صلى الله عليه وسلم لابن مسعود ليس من المصافحة فى شيئ، بل من باب الأخز باليد الذى قد يقع من غير حصول مصافحة، و به تحصل المطابقة لما ترجم له، ولهذا أورد أثر حماد بن زيد كالرد عليه، وهذه عادته انه أحيانا يورد الآثار فى الباب للرد عليها.» (3)
تحت الباب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت وارد فرمائی، موطولا اور موصولا بھی، پس اس سے مراد باب کی طرح ہے کہ یہ فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوا تھا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا تھا، (سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نہیں)، اور یہ مصافحہ نہیں تھا، بلکہ باب ہے ایک ہاتھ سے جس میں مصافحہ کا حصول نہیں ہے اور اسی تحصیل کے لیے باب قائم ہے اور اسی لیے حماد بن زید کے اثر کا ذکر فرمایا تاکہ اس کا رد کر دیں، (کہ دو ہاتھوں سے مصافحہ نہیں ہے) اور یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ بسا اوقات آپ تحت الباب جو آثار پیش کرتے ہیں وہاں ان کا رد کرنا مقصود ہوتا ہے۔
علامہ عبدالحق رحمہ اللہ کے اقتباسات سے یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے بارے میں باب نہیں قائم فرمایا، بلکہ آپ نے «أخذ باليد» کا باب قائم فرمایا ہے، کیوں کہ آپ رحمہ اللہ کا یہاں مقصود دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کے رد کا ہے، اسی لیے تحت الباب زید بن حماد کا اثر نقل فرمایا اور اس کا رد کیا دقیق الفاظوں سے، پھر اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل فرمائی، حدیث میں مصافحہ کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھا جو اس بات کی روشن دلیل ہے کہ یہاں پر مصافحہ ثابت کرنا مقصود نہیں بلکہ دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنے والوں کا رد اور وہ رد اس انداز سے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تربیت کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو استعمال فرمایا نہ کہ مصافحہ کی غرض سے، اور اگر یہاں پر دو ہاتھوں سے مصافحہ مراد ہوتا تو اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ تھا جس کے احناف بھی قائل نہیں ہیں، چنانچہ اس موقع پر محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کی گزارشات فائدے سے خالی نہ ہوں گی، چنانچہ آپ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ «وكفى بين كفيه» میں لفظ «كفى» سے ظاہر یہ ہے کہ ان کی فقط ایک ہتھیلی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ حالت تعلیم تشہد میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقط ایک ہتھیلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں میں تھی، کیوں کہ «كفى» میں لفظ «كف» مفرد ہے اور مفرد فرد واحد پر دلالت کرتا ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کف کو بصیغہ تثنیہ اور اپنے کف کو بصیغہ مفرد ذکر کرنا بھی ظاہر دلیل اسی امر کی ہے کہ لفظ «كفى» سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک ہتھیلی مراد ہے، نیز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اگر دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں متبرک ہتھیلیوں میں ہوتیں تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ضرور اس کی تصریح فرماتے اور اہتمام اور اعتناء کے ساتھ بلکہ فخر کے ساتھ فرماتے «وكفاى بين كفيه» یعنی میری دونوں ہتھیلیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی، اس صورت میں «وكفى بين كفيه» کہنے کا موقع نہیں ملتا، نیز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی غرض «وكفى بين كفيه» سے اس حالت اور وضع کا بتانا ہے جس حالت اور وضع کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تشہد کی تعلیم دی . . . . .
مطلب یہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی فقط ایک ہتھیلی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی تو ظاہر ہے کہ اس دلیل سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے والوں کا دعوی کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا، کیوں کہ یہ لوگ اس طرح کے مصافحہ کے قائل نہیں بلکہ اس مصافحہ کے قائل ہیں جس میں دونوں جانب سے دو دو ہتھیلیاں ملائی جائیں، پس جو ان کا دعوی ہے وہ اس دلیل سے ثابت نہیں ہوتا اور جو ثابت ہوتا ہے وہ ان کا دعوی نہیں ہے۔(1)
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود اس باب سے مصافحہ کو ثابت کرنے کا نہیں ہے، بلکہ آپ کا مقصود بغیر مصافحہ کے حصول کے لیے ہے، کیوں کہ ما قبل باب «باب المصافحة» قائم فرما کر آپ نے مصافحہ کرنے کو ثابت فرمایا، کیوں کہ لفظ مصافحہ صفح سے ہے، جس کے معنی ہتھیلی سے ہتھیلی ملانا ہے، اس مقام پر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مصافحہ ہتھیلی سے ہتھیلی کو ملانا ہے، نہ کہ ہتھیلیوں سے ہتھیلیاں ملانا تو اس سے ثابت ہوا کہ «باب الأخذ باليدين» کا تعلق بغیر حصول مصافحہ کے ہیں، چنانچہ عبدالحی رحمہ اللہ جو کہ حنفی ہیں اور آپ کا مقام اہل علم میں شمار ہے، آپ لکھتے ہیں:
«وآنچه كه در صحيح بخاري در باب مذكور از عبدالله بن مسعود رضي الله عنه درست.» (2)
یعنی صحیح بخاری میں جو سیدنا عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد سکھایا، اس حالت میں کہ میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہتھیلیوں میں تھی، سو ظاہر یہ ہے کہ یہ مصافحہ متوراضہ جو بوقت ملاقات مسنون ہے وہ نہیں ہے، بلکہ طریقہ تعلیمیہ تھا کہ اکابر کسی چیز کے اہتمام تعلیم کے وقت دونوں ہاتھوں سے یا ایک ہاتھ سے اصاغر کا ہاتھ پکڑ کر تعلیم دیتے تھے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«. . . . . إدخال هذا الحديث فى المصافحه أن الأخذ باليد يستلزم التقاء صفحة اليد بصفحة اليد غالبًا و من ثم أفردها بترجمة تلي هذه الجواز وقوع الأخذ باليد من غير حصول المصافحة.» (3)
مصافحہ کے باب میں اس حدیث (عبد اللہ بن ہشام والی، رقم الحدیث: 6474) کو داخل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہاتھ پکڑ نا غالبا صفحہ ید سے التقاء کو مستلزم ہے، اسی وجہ سے آگے ( «باب الأخذ باليدين» میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث) کو حصول مصافحہ کے بغیر ہاتھ تھام لینے کے جواز کا ترجمہ لائے ہیں۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و لما كان الأخذ باليد يجوز أن يقع من غير حصول مصافحة أفرده بهذا الباب.» (1)
ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ترجمۃ الباب، امام بخاری رحمہ اللہ نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کا نہیں باندھا، بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول زیادہ تر صحیح «الأخذ باليد» ہی ہے اور اگر تھوڑی دیر کے لیے «الأخذ باليدين» مان بھی لیا جائے تو تین چیزیں قابل غور ہوں گی:
اول: ترجمۃ الباب سے دونوں ہاتھوں کا مصافحہ ثابت نہیں ہوگا، کیوں کہ ماقبل باب اسی مسئلے کے لیے دال ہے۔
دوم: حماد بن زید کا اثر، اس سے بھی مصافحہ بالیدین ثابت نہ ہو گا۔
ثالث: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث مصافحہ پر دلالت نہیں کرتی، جس کو ہم نے پچھلے اوراق میں ثابت کیا ہے۔
اب ترجمۃ الباب سے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ نہ کرنے پر دلیل اخذ کی جا سکتی ہے، کیوں کہ تحت الباب ایسی کوئی حدیث پیش نہیں فرمائی جبکہ حدیث طریقہ تعلیم پر دال ہے۔ «فافهم!»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 200   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 968  
´تشہد (التحیات) کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں بیٹھتے تو یہ کہتے تھے «السلام على الله قبل عباده السلام على فلان وفلان» یعنی اللہ پر سلام ہو اس کے بندوں پر سلام سے پہلے یا اس کے بندوں کی طرف سے اور فلاں فلاں شخص پر سلام ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا مت کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود سلام ہے، بلکہ جب تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھے تو یہ کہے «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين» آداب، بندگیاں، صلاتیں اور پاکیزہ خیرات اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر سلام، اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، اور سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نیک و صالح بندوں پر کیونکہ جب تم یہ کہو گے تو ہر نیک بندے کو خواہ آسمان میں ہو یا زمین میں ہو یا دونوں کے بیچ میں ہو اس (دعا کے پڑھنے) کا ثواب پہنچے گا (پھر یہ کہو): «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں پھر تم میں سے جس کو جو دعا زیادہ پسند ہو، وہ اس کے ذریعہ دعا کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 968]
968۔ اردو حاشیہ:
➊ تشہد کے تمام صیغوں میں یہ صیغے صحیح ترین ہیں۔
«التحيات» «تحيه» کی جمع ہے اور ا س کے معنی ہیں: سلامتی، بقا، عظمت، بے عیب ہونا اور ملک و ملکیت۔ اور بقول علامہ حطابی و بغوی یہ لفظ تعظیم کے تمام تر معانی پر مشتمل ہے۔
«الصلواة» «صلاة» کی جمع ہے۔ یعنی عبادت، رحمت، دعایئں اسی سے مخصوص ہیں۔
«الطيبات» «طيبة» کی جمع ہے۔ یعنی ذکر، اذکار، اعمال صالح اور اچھی باتیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ «التحيات» سے قولی عبادات «الصلواة» سے فعلی عبادات اور «الطيبات» سے مالی عبادات مراد ہیں۔ دیکھیے: [نيل الاوطار۔ 311۔ 213/2]
«السلام عليك ايهاالنبي ورحمة الله» میں غائب کی بجائے صیغہ خطاب کا ورود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے اور اس کی حقیقی حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بظاہر یوں ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے تحیات پیش کرتا ہے، تو اسے یاد دلایا گیا ہے کہ یہ سب کچھ تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ملا ہے۔ اس لئے بندہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے آپ کو صیغہ خطاب سے سلام پیش کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ ان الفاظ میں براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنوانا مقصود ہے۔ یہ خیال برحق اور درست نہیں ہے کیونکہ اس انداز میں خطاب ہمیشہ سنوانے کے لئے نہیں ہوتا اور اس کی دلیل سنن نسائی کی درج زیل حدیث ہے۔ حضرت ابورافع بیان کرتے ہیں۔ «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اذا صلى العصر ذهب الي بني عبد الاشهل فيتحدث عندهم حتي ينحدر للمغرب قال ابورافع فبينما النبى الله صلى الله عليه وسلم يسرع الي المغرب مررنا بالبقيع فقال اف لك اف لك قالز فكبر ذلك فى ذرعي فاستاخرت وظننت انه يريدني فقال . . . ما لك؟ امش . فقلت احدث حدث قال ما ذلك؟ قلت اففت بي قال لاولكن هذا فلان بعثته ساعيا على بيني فلان فغل نمرة فلرع الان مثلها من نار» [سنن نسائي۔ الامامة۔ حديث 863]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد قبیلہ بنو عبدالاشھل کے پاس جاتے اور گفتگو میں مشغول رہتے تھے حتیٰ کے مغرب کے قریب واپس تشریف لاتے۔ ابورافع کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کے لئے جلدی جلدی تشریف لا رہے تھے اور ہم بقیع کے پاس سے گزر رہے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ افسو س ہے، تجھ پر افسوس ہے، تجھ پر۔ ابورافع کہتے ہیں کہ اس پر مجھے گرانی محسوس ہوئی اور میں پیچھے ہو گیا۔ میں نے سمجھاکہ شاید آپ میرا ارادہ فرما رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ہوا؟ آگے چلو۔ میں نے عرض کیا: حضرت کیا کوئی بات ہوئی ہے؟ فرمایا: کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا: آپ نے مجھ پر افسوس کا اظہا ر فرمایا ہے۔ فرمایا: نہیں، اس فلاں شخص کو میں نے فلاں قبیلے کے پاس عامل بنا کر بھیجا تھا تو اس نے مال میں سے ایک دھاری دارچادر چھپا لی۔ چنانچہ اب اسے اس طرح آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔

اس حدیث میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا منظر دیکھایا گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر صیغہ خطاب سے افسوس کا اظہار فرمایا۔ اس طرح نیا چاند یکھنے کی دعا میں ہے۔ «اللهم اهله علينا بالامن والايمان والسلامة والاسلام ربي وربك الله» [مستدك حاكم۔ 285/4۔ حديث۔ 7767]
اے اللہ! . . . اے چاند! میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ یہاں چاند کو سنوانا مقصود نہیں بلکہ تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ الغرض تشہد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صیغہ خطاب اسماع (سنوانے) کے لئے نہیں۔ بلکہ تعلیم نبی کی بنا پر ہے۔ «والله اعلم»
اگر سنوانا مقصود ہوتا تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سلام کے صیغہ خطاب کو صیغہ غیب سے ہرگز تبدیل نہ کرتے اور «السلام على النبى صلى الله عليه وسلم» نہ پڑھتے اور نہ اس کی تعلیم دیتے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري۔ حديث۔ 6265]
➍ لفظ «فليقل» چاہیے کہ کہے سے استدلال ہے کہ تشہد پڑھنا واجب ہے۔
➎ سلام سے پہلے دین و دنیا کی حاجات کی طلب بھی مستحب ہے اور یہ دعا کا بہترین وقت اور مقام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 968   
    الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 835  
آخری تشہد میں دعا
------------------
سوال: کیا حالت تشہد میں کوئی دعا ضروری بھی ہے یا سب اختیاری ہیں؟ کتاب و سنت کی رو سے واضع کریں۔
جواب: نماز کے آخری تشہد میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آخری تشہد سے فارغ ہو تو وہ چار چیزوں سے اللہ کی پناہ پکڑے (1) جہنم کے عذاب سے (2) قبر کے عذاب سے (3) زندگی اور موت کے فتنہ سے (4) مسیح و دجال کے شر سے۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة/ باب مَا يُسْتَعَاذُ مِنْهُ فِي الصَّلاَةِ:/ فواد: 588، دارالسلام: 1324]
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر نمازی کو آخری تشہد سے فارغ ہو کر یہ دعاکرنی چاہیے:
«اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ» [مسلم، كتاب المساجد 588]
اس کے بعد جو جی چاہے دعا مانگ لے جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ میں آپ کی حدیث ہے:
«وَلِيَتَخَيَّرْ مِنَ الدُّعَاءِ اَعْجَبَهُ اِلَيْهِ فَيَدْعُوْ» [صحيح بخاري، كتاب الأذان: باب ما يتخير من الدعاء بعد تشهد 835]
جو دعا پسند ہو وہ مانگ لیں۔
   احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 195   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث899  
´تشہد کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو کہتے: «السلام على الله قبل عباده السلام على جبرائيل وميكائيل وعلى فلان وفلان» سلام ہو اللہ پر اس کے بندوں سے پہلے، اور سلام ہو جبرائیل و میکائیل اور فلاں فلاں پر، اور وہ مراد لیتے تھے (فلاں اور فلاں سے) فرشتوں کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کہتے سنا تو فرمایا: تم «السلام على الله» نہ کہو، کیونکہ اللہ ہی سلام ہے، لہٰذا جب تم تشہد کے لیے بیٹھو تو کہو «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 899]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اللہ تعالیٰ کی عظمت وشان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے اقوال وافعال سے پرہیز کرنا چاہیے۔
جو اس کے ادب کے منافی ہوں۔

(2)
بعض اوقات غلط فہمی کی بنا پر انسان ایک لفظ کو مناسب تصور کرتا ہے۔
حالانکہ وہ نامناسب ہوتا ہے۔
جب ایسی کسی غلطی پر متنبہ کیا جائے۔
تو فوراً اصلاح کرلینی چاہیے۔

(3) (التحیات)
 ان الفاظ کو کہا جاتا ہے۔
جن کے ذریعے سے لوگ ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
اسلامی تہذیب میں اس مقصد کےلئے السلام علیکم اور وعلیکم السلام جیسے الفاظ مقرر ہیں۔
اللہ کے لئے تحیات سے مراد وہ عبادتیں ہیں۔
جن کا تعلق زبان اور گویائی سے ہے۔
مثلا اللہ کی تعریف، شکر، ذکر، دعا، قسم وغیرہ۔
یہ سب عبادتیں اللہ کا حق ہیں۔
ان میں کسی اور کو شریک کرنا درست نہیں۔
مخلوق کی کسی ظاہری خوبی کی تعریف جس میں عبادت کے جذبات شامل نہیں ہوتے۔
وہ اس عبادت میں شامل نہیں۔

(4) (الصلوٰت)
صلاۃ کی جمع ہے۔
جس کے لغوی معنی دعا اور شرعی معنی نماز کے ہیں۔
یہاں اس سے مراد بدنی عبادتیں ہیں مثلا رکوع، سجدہ، قیام، طواف اور روزہ وغیرہ۔
کسی کے لئے احتراماً جھکنا یا کسی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا یا اللہ کے گھر کے سوا کسی چیز قبر، عمارت اور درخت وغیرہ کا طواف کرنا شرک ہے۔
سجدہ تعظیمی پہلی شریعتوں میں جائز تھا۔
اب حرام ہے۔
یہ اور اس قسم کی تمام عبادتیں صرف اللہ کا حق ہیں۔

(5) (الطیبات)
پاک چیزیں پاک اعمال۔
اس سے مالی عبادتیں مراد لی گئی ہیں۔
مثلاً زکواۃ و صدقات، نذر ونیاز وغیرہ۔
مخلوق میں سے کسی کے نام کی نذر جائز نہیں۔
خواہ وہ مالی نذر ہو يا بدنی، ان تین الفاظ میں ہرقسم کی عبادات اللہ ہی کے لئے خاص ہونے کا اقرار ہے اور یہی توحید ہے۔

(6)
دوسروں کےحق میں دعا کرتے وقت اپنے لئے بھی دعا کرلینی چاہیے۔
اسی طرح جب اپنے لئے دعا کرنا مقصود ہو تو دوسروں کو بھی شامل کرلینا چاہیے۔
خصوصاً جو مسلمان بھائی نظروں سے اوجھل اور جسمانی طور پردور ہوں۔
ان کےلئے دعا کرنا خلوص کی علامت ہے۔
ممکن ہے اس کی برکت سے دعا مانگنے والے کی اپنے حق میں دعا قبول ہوجائے۔

(7)
زمین اور آسمان میں موجود نیک بندوں میں تمام نیک انسان جن اور تمام فرشتے شامل ہوجاتے ہیں۔
اس لئے جبریئل، میکائیل علیہ السلام وغیرہ کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔
اس سے ظاہر ہے کہ مسنون دعاؤں میں جو جامعیت اور خوبی ہے وہ خود ساختہ دعاؤں میں نہیں۔
لہٰذا مسنون اذکار کوچھوڑ کر غیر مسنون دعاؤں اوراذکار میں مشغول نہیں ہونا چاہیے۔
دعائے گنج العرش، درودتاج، درود ماہی، درود لکھی کے نام سے بہت سی چیزیں مشہور ہیں جن کی کوئی بنیاد نہیں۔

(8) (التحیات)
کی دُعا میں مختلف روایات میں الفاظ کا معمولی فرق ہے۔
صحیح سندوں سے روایت شدہ الفاظ کے مطابق جیسے بھی پڑھ لیا جائے درست ہے۔
ان میں سے بعض آئندہ روایات میں مذکور ہیں۔
 
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 899   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 247  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف توجہ فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو تشہد میں یوں کہے۔ «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» تمام سلامیاں اللہ ہی کیلئے ہیں اور نمازیں پاکیزیاں بھی (زبانی، بدنی اور مالی عبادتیں صرف اللہ کے لئے ہیں) اے نبی! سلام ہو آپ پر اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت (معبود) نہیں اور اس کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ پھر اسے دعا کا انتخاب کرنا چاہیئے کہ جو اسے سب سے اچھی لگے وہ مانگے۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں اور نسائی میں ہے کے ہم تشہد فرض ہونے سے پہلے کہا کرتے تھے اور احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تشہد سکھایا اور حکم دیا کہ لوگوں کو اسے سکھاؤ اور مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد سکھاتے تھے (وہ اس طرح تھا) «التحيات المباركات الصلوات الطيبات لله» إلى آخره۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 247»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب التشهد فلي الآخرة، حديث:831، ومسلم، الصلاة، باب التشهد في الصلاة، حديث:402، والترمذي، الصلاة، حديث:289، والنسائي، السهو، حديث:1278، وأحمد:1 /376، وحديث ابن عباس أخرجه مسلم، الصلاة، حديث:403.»
تشریح:
1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تشہد کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے۔
دعا کون سی مانگی جائے؟ اس پر کوئی پابندی نہیں۔
جو چاہے جتنی چاہے مانگ سکتا ہے‘ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ دعائیں افضل ہیں۔
قرآنی دعائیں بھی مانگ سکتا ہے اور اپنی ضروریات کے لیے دیگر دعائیں بھی۔
2. اس حدیث سے تشہد کا واجب ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
3.حضرت عمر‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وجوب کے قائل ہیں۔
دوسرے اہل علم کے نزدیک فرض ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے تشہد کے جو الفاظ مروی ہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور اکثر علماء نے انھیں پسند کیا ہے کیونکہ یہ تشہد کے باب میں صحیح ترین روایت ہے۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی تشہد کو اختیار کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 247   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 289  
´تشہد کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ جب ہم دو رکعتوں کے بعد بیٹھیں تو یہ دعا پڑھیں: «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں، سلام ہو آپ پر اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 289]
اردو حاشہ:
1؎:
لیکن خصیف حافظہ کے کمزور اور مرجئی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 289   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6265  
6265. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے تشہد سکھایا، اس وقت میرا ہاتھ آپ ﷺ کی دونوں ہتھیلوں کے درمیان تھا۔ یہ تشہد آپ نے اس انداز سے سکھایا جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ (وہ یہ ہے) تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادات اللہ تعالٰی کے لیے مخصوص ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر سلام ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ اس وقت ہم میں موجود تھے جب آپ وفات پا گئے تو ہم (خطاب کے صیغے کے بجائے) اس طرح پڑھنے لگے: ''السلام علی النبی ﷺ'' [صحيح بخاري، حديث نمبر:6265]
حدیث حاشیہ:
مصافحہ ایک ہاتھ سےمسنون ہے یا دونوں ہاتھ سے، اس کےلیے ہم محدث کبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری  کی قلم مبارک سےکچھ تفصیلات پیش کرتے ہیں۔
مزید تفصیل کےلیے آپ کےرسالہ المقالۃ الحسنیٰ کا مطالعہ کیا جائے۔
حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں۔
ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنا جس طرح اہل حدیث مصافحہ کرتے ہیں، احادیث صحیحہ صریحہ اور آثار صحابہ سےنہایت صاف طو رپر ثابت ہے اس کےثبوت میں ذرا بھی شک نہیں ہے اور دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کرنا جس طرح اس زمانہ کےحنفیہ میں رائج ہے نہ کسی حدیث صحیح سےثابت ہے اور نہ کسی صحابی کےاثر سے اورنہ کسی تابعین کےقول وفعل سےائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل)
سےبھی کسی امام کا دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کرنا یا اس کا فتویٰ دینا بسند منقول نہیں اور فقہائے حنفیہ نے تشبیہ اورتمثیل کے پبرا یہ میں جو یہ لکھا ہےکہ عبداللہ بن مسعود نے فقہ کی کاشت کی اور زراعت لگائی اور علقمہ  نےاس میں آبپاشی کی اور اس کو سینچا اور ابراہیم نخعی نےاس کو کاٹا اور حماد نےمالش کی اور امام ابوحنیفہ نے اس کوغلبہ کی چکی میں پیسا اور امام ابویوسف نے اس کےآٹے کو گوندھا اور امام محمد نےاس کی روٹی پکائی اور باقی تمام لوگ (یعنی مقلدین احناف)
اس روٹی سےکھا رہے ہیں۔
سو واضح ہو کہ ان کا کاشت کرنے والے، زراعت لگانے والے، آبپاشی کرنے والے، کانٹے والے، مالش کرنےوالے، آٹا پیسنے والے، آٹا گوندھنے والے اور روٹی پکانے والے میں سے بھی کسی کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا یا اس کا فتویٰ دینا ثابت نہیں۔
حنفیہ کے نزدیک جو نہایت مستند اورمعتبر کتابیں ہیں جن پرمذہب حنفی کی بنا ہے، ان میں بھی دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کا مسنون یا مستحب ہونا نہیں لکھا ہے۔
کتب حنفیہ میں طبقہ اولیٰ کی کتابیں امام محمد کی تصنیفات (مبسوط، جامع صغیر، جامع کبیر۔
سیر صغیر۔
سیر کبیر۔
زیادات)

ہیں۔
جن کے مسائل مسائل اصول اور مسائل ظاہر الروایۃ سے تعبیر کئے جاتے ہیں اورامام محمد کی ان تصنیفات میں آخری تصنیف بقول علامہ ابن الہمام جامع صغیر ہےامام محمد کی اس آخری تصنیف کی جلالت شان کا پتہ بھی اچھی طرح تم کو ايسےلگ سکتا ہےکہ امام ابویوسف جوامام محمد کےاستاد ہیں اس کتاب کو ہر وقت اپنے پاس رکھتے تھے۔
نہ حضر میں اس کو جدا کرتےاور نہ سفر میں۔
اس آخری تصنیف میں بھی امام محمد نے یہ نہیں لکھا ہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سےکرنا چاہیے۔
بلکہ صرف ا س قدر لکھا ہے لا بأس بالمصافحة یعنی مصافحہ کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔
فقہائے حنفیہ کےطبقہ ثانیہ میں علامہ قاضی خان بہت بڑے پایہ کےفقیہ ہیں۔
آپ کی ضخیم کتاب جو فتاویٰ قاضی خان کے نام سے مشہور ہے۔
عندالحنفیہ نہایت مستند ہے۔
قاضی صاحب نے اپنی اس کتاب کے ہر باب میں بے شمار مسائل جزئیہ کو درج فرمایا ہے لیکن آپ نے بھی اس کتاب میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کو نہیں لکھا ہے بلکہ مصافحہ کےمتعلق صرف وہی لکھا ہے جو امام محمد نے جامع صغیر میں لکھا ہے۔
کتب معتبرہ حنفیہ میں ہدایہ ایک درسی اورایسی مقبول اور مستند ومعتمد کتا ب ہے کہ اس کی مدح میں فقہائے حنفیہ اس شعر کوپڑھتے ہیں۔
إن الهداية كالقرآن قدنسخت ما صنفو ا قبلها في الشرع من كتب یعنی ہدایہ نےقرآن مجید کی طرح تمام ان کتابوں کومنسوخ کر دیا جو اس سے پہلے لوگوں نےتصنیف کی تھیں اس کتاب میں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سےکرنا چاہیے بلکہ اس میں صرف اس قدر لکھا ہے ولا بأس بالمصافحة لأنه هو المتوارث وقال عليه السلام من صافح أخاه المسلم و حرك يده تناثرت ذنوبه انتهى یعنی مصافحہ کرنےمیں کچھ مضائقہ نہیں ہے کیونکہ وہ ایک قدیم سنت ہےاور رسول اللہﷺ نے فرمايا کہ جو شخص اپنے بھائی مسلمان سے مصافحہ کرے اور اپنے ہاتھ کو ہلاوے تو اس کے گناہ جھڑتے ہیں۔
اور ہدایہ کس شروح بنایہ۔
کفایہ۔
کفایہ۔
نتائج الافکار۔
تکملہ۔
فتح القدیر وغیرہ میں بھی اس امر کی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سے مسنون یا مستحب اور کتب معتبرہ حنفیہ شرح وقایہ بھی درسی کتاب ہے اورقریب قریب ہدایہ کےمقبول ومستند ہے۔
اس میں بھی دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کامسنون یا مستحب ہونا نہیں لکھا ہے۔
اس میں بھی صرف اس قدر لکھا ہےکہ مصافحہ کرنا جائز ہے اور اس کتاب کےشروح وحواشی معبرہ ذخیرہ العقیٰ وغیرہ میں بھی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ مصافحہ دونوں ہاتھوں سے ہونا چاہیے۔
اب آؤ ذرا ان متون ثلاثہ معتبرہ کو دیکھیں جن پر فقہائے متاخرین کا اعتماد (اعلم أن المتأخرين قد اعتمدوا على المتون الثلثة الوقاية ومختصر القدوري و الكنز كذا في النافع الكبير)
ہے۔
یعنی وقایہ۔
قدروی۔
سو واضح رہے کہ ان متون میں بھی دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کا مسنون یا مستحب ہونا نہیں لکھا ہے۔
المختصر مذہب حنفی کتابیں مستند ومعتبر ہیں جن پر مذہب حنفی کی بنا ہے ان میں سے کسی میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا نہیں لکھا ہےنہ ان میں یہ لکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ضروری ہے اور نہ یہ لکھا کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ مسنون یا مستحب ہے۔
اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ فقہ حنفی میں درمختار ایک مشہور ومعروف کتاب ہے اور اس میں لکھا ہے کہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے تو ان کو یہ جواب دینا چائیے کہ کسی کتاب کا مشہور ہونا اور بات ہے اور اس کا مستند ومعتبر ہونا اور بات۔
درمختار کےمشہور ومعروف ہونےسے اس کا مستندر ومعتمد ہونا لازم نہیں دیکھ فقہ حنفی میں خلاصہ کیدانی کیسی مشہور کتاب ہے بالخصوص بلاد ماوراء النہر میں کہ وہاں تولوگ اسے ازبر یاد کرتےہیں۔
مگر ساتھ اس شہرت کےباوجود محققین حنفیہ کے نزدیک بالکل غیر مستند اور ناقابل اعتبار ہے پس درمختار کے مشہور ومعروف ہونے سے اس کا مستند و معتمد ہونا ضروری نہیں ہے اور اس کے فقہائے حنقیہ نے اس امر کی صاف تصریح (مقدمة عمدة الرعاية حاشية شرح وقاية میں ہے لا يجوز الافتاء من الكتب المختصره كالنهر وشرح الكنز اللعيني والدر المختار شرح تنوير الأنصار انتهي)
کی ہے کہ در مختار وغیرہ کتب مختصرہ سےفتویٰ دینا جائز نہیں۔
علاوہ بریں ہمیں یہ بھی دیکھناضروری ہےکہ درمختار میں یہ مسئلہ (یعنی دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کاسنت ہونا)
کسی کتاب سےنقل کیا گیا ہےاورجس کتاب سےنقل کیا گیا ہے وہ کتاب کیسی ہے معتبر ہے یاغیر معتبر پس واضح ہوکہ درمختار میں یہ مسئلہ قنیہ سےنقل (درمختار میں ہے وفي القنية السنة في المصافحة بكلتايد يه وتمامه فيما علقمه على الملقى اتنهى)
کیاگیا ہےاور عندالحنفیہ قنیہ معتبرنہیں ہے۔
(دیکھوں عمدۃ الرعایۃ 12)
اس کتاب کامصنف اعتقادا معتزلی تھا اورفروع میں حنفی۔
اس کی تما م کتابیں قنیہ وغیرہ بتصریح فقہائے حنفیہ نامعتبر وغیرہ مستند ہیں اور صاحب قنیہ نےاس مسئلہ کی کوئی دلیل بھی نہیں لکھی ہے۔
پس جب معلوم ہواکہ درمختار میں یہ مسئلہ قنیہ سےنقل کیاگیا ہےاورفقہائے حنفیہ کےنزدیک قنیہ غیر وغیر مسنتد ہےاور قنیہ میں اس کی کوئی دلیل بھی نہیں لکھی ہےتوظاہرہےکہ دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کےسنت ہونےکے ثبوت میں درمختار کانام لینا واقف لوگوں کاکام ہےاور درمختار کےمثل بعض اور کتب حنفیہ متاخرین میں بھی دونوں ہاتھوں سےمصافحہ کےمسنون ہونے کا دعویٰ کیاگیاہےلیکن وہ نہ کتب معتبرہ مذکورہ بالا کی طرح معتبرہ مستند ہیں اوران میں معتبر ومستند کتاب سے یہ دعویٰ منقول ہےاور ان میں اس کی دلیل لکھی ہے۔
غالب یہ ہےکہ اسی قنیہ سےبواسطہ یہ دعوی نقل کیاگیا ہے۔
یہ سب باتیں جب تم سن چکے تواب ہمارے اس زمانہ کےاحناف کاصنیع دیکھو۔
ان لوگوں نےاس مسئلہ میں تحقیق سےکچھ بھی کام نہیں لیا اور جن احادیث سےایک ہاتھ سےمصافحہ کامسنون ہوناثابت ہوتاہےاس کوبالکیہ نظر انداز کیابلکہ اپنی ان تما م مستند کتابوں کوبھی نظر انداز کیا جن پرمذہب حنفی کی بنا ہےاور اڑے توکس پردرمختار وغیرہ پراوراڑے توایسا کہ ایک ہاتھ کےمصافحہ کوغیر مسنون ٹھہرادیااور بعض جہال ومتعصبین نےتو ا س قدر تشدد کیاکہ اپنی جہالت اورتعصب کےجوش میں آکر ایک ہاتھ کےمصافحہ کی نسبت نادرست اوربدعت ہونے کادعویٰ کردیا اور اس پربھی تسکین نہ ہوئی توا س سنت نبویہ کونصاریٰ کاکام ٹھہراکراور اس سنت کےعاملین کوبرے لقب سےیاد کرکے اپنے جہالت اورتعصب بھرے ہوئے دل کو ٹھنڈا کیا۔
انا لله وإنا اليه راجعون وها انا اشرح فى المقصود متوكلا على الله الودود- ايک ہاتھ سے مصافحہ کےمسنون ہونے کےثبوت میں پہلی روایت:
حافظ ابن عبدالبر تمہید شرح مؤطا میں لکھتے ہیں۔
حدثنا عبدالوارث بن سفيان قال ثنا قاسم بن اصبغ ثنا ابن وضاح قال ثنا يعقوب بن كعب قال ثنا مبشربن اسماعيل عن حسان بن نوح عن عبيدالله بن بسر قال ترون يدى هذه صافحت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر الحديث یعنی عبیدالله بسر سروایت ہےکہ انہوں نے کہاکہ تم لوگ میرے اس ہاتھ کودیکھتے ہو۔
میں نے اسی ایک ہاتھ سے رسول اللہﷺ سےمصافحہ کیا ہے اور ذکر کیا حدیث کو۔
یہ حدیث صحیح ہے۔
اس حدیث سے بصراحت ثابت ہواکہ ایک ہاتھ سےمصافحہ کرنامسنون ہے۔
دوسری روایت:
عن انس بن مالك قال صافحت بكفى هذا كف رسول الله صلى الله عليه وسلم فما مسست خزا ولا حرير ألين من كفه صلي الله عليه وسلم –یعنی انس بن مالک سےروایت ہےکہ میں نے اپنی اس ایک ہتھیلی سےمصافحہ کیا ہے رسول اللہﷺ کی ہتھیلی سےپس میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سےزیادہ نرم نہ کسی خزکواور نہ کسی ریشمی کپڑے کومس کیا۔
یہ حدیث مسلسل بالمصافحہ کےنام سےمشہور ہے۔
اس حدیث کی سند میں جتنے راوی واقع ہیں ان میں سے ہرایک نےاس حدیث کوروایت کرتےوقت اپنے استاد سےایک ہی ہاتھ سے مصافحہ کیاہے جیسا کہ انس نےایک ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ سےمصافحہ کیا تھا۔
اس حدیث کوعلامہ محمدعابد سندی  نےحصر الشارد،، میں اور علامہ شوکانی نےاتحاف الاکابر میں اوربہت سےمحدثین نےاپنے مسلسلات میں ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کی اسناد کےکئی طریق ہیں۔
بعض طریق اگرچہ قابل احتجاج واستشہاد نہیں مگر بعض طریق قابل استشہاد ضرور ہیں اورہم نے اس روایت کواحتجاج پیش نہیں کیاہے بلکہ استشہاد ا ً اوراسی طرح تیسری روایت بھی استشہاد اً ہی ذکر کی گئی ہے۔
واضح ہوکہ ان دونوں روایتوں میں اگرچہ داہنے ہاتھ کی تصریح نہیں ہےلیکن ان روایتوں میں جوآگے آتی ہیں داہنے ہاتھ کی تصریح موجود ہےاورمصافحہ کرداہنے ہاتھ سےمسنون ہونے کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سےبھی ہوتی ہے۔
كان النبى صلى الله عليه وسلم يحب التيمن ما استطاع فى شانه كله فى طهور ه وترجله وتنعله متفق عليه كذا فى المشكوة -یعنی رسول اللہ ﷺ اپنے تمام کاموں میں حتی الوسع داہنے کومحبوب رکھتے وضو کرنے میں اور کنگھی کرنے اور جوتا پہننےمیں۔
اس حدیث کےعموم میں مصافحہ بھی داخل ہےجیسا کہ علامہ عینی نےبنایہ شرح ہدایہ میں امام نووی نےشرح صحیح مسلم میں اس کی تصریح کی ہے۔
تیسرے روایت:
صحیح ابوعوانہ میں عمروبن العاص سےروایت ہے۔
فلما جعل الله الاسلام في قلبي اتيت رسول الله صلي الله عليه وسلم فقلت يا رسول الله بسط يدك لا بايعك فبسط يمينه فقبضت يدى فقال مالك ياعمرو! فقلت اردت ان اشترط فقال تشترط ماذا قلت يغفرلى فقال ماعلمت ياعمرو ان السلام يهدم ماكان قبله الحديث۔
یعنی عمروبن العاص کہتےہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے قلب میں اسلام ڈالا تومیں رسول اللہ ﷺ کےپاس آیااور کہا یا رسول اللہ! اپنے ہاتھ(مبارک)
کوبڑھایئے کہ میں آپ سے بیعت کروں پس رسو ل اللہ ﷺ نےاپنے داہنے ہاتھ کوبڑھایا پھر میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا۔
آپ نے فرمایا کیا ہے تجھ کواسے عمرو! میں نے کہا کچھ شرط کرناچاہتاہوں آپ نے فرمایا کس بات کی شرط کرناچاہتا ہے؟ میں نےکہا ا س با ت کی کہ میری مغفرت کی جائے۔
آپ نے فرمایا کہ تجھ کوخبر نہیں کہ اسلام کےپہلے جتنے گناہ ہوتے ہیں ان کواسلام نیست ونابود کردیتاہے اس حدیث کوامام مسلم نےبھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہےمگر اس میں بجائے ابسط یدک کےابسط یمینک واقع ہوا ہے۔
اس حدیث سےصراحتاً معلوم ہواکہ بیعت کےوقت ایک ہی ہاتھ سے (یعنی داہنے ہا تھ سے)
مصافحہ کرنامسنون ہے۔
کیونکہ اگر دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کی عادت بھی برابرجاری رہی ہے۔
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ، ص: 87؍ ج: 1 میں اس حدیث کےتحت میں لکھتےہیں۔
بسط يمينك اى افتحها و مدها لاضع يمينى عليها كما هوالعادة البيعة یعنی اپنے داہنے ہاتھ کوبڑھائیے تاکہ میں اپنے داہنے ہا تھ کو آپ کےداہنے ہاتھ پررکھوں جیسا کہ بیعت میں عادت ہے۔
جب اس حدیث سےثابت ہواکہ بیعت کےوقت ایک ہی ہاتھ (یعنی داہنے ہاتھ)
سےمصافحہ کرنا مسنون ہےتو اسی ملاقات کےوقت بھی ایک ہی ہاتھ (یعنی داہنےہاتھ)
سےمصافحہ کامسنون ہونا ثابت ہواکہ مصافحہ ملاقات اورمصافحہ بیعت دونوں کی حقیقت ہےان دونوں مصافحہ کی حقیقت میں شریعت سےکچھ فرق نہیں ثابت نہیں ہےکما تقدم بیانہ۔
پانچویں روایت:
مسند احمدبن حنبل، ص: 567 میں ہے۔
حدثنا عبدالله حدابى ثناابوسعيد وعفان قالا ثنا ربيعة بن كلثوم حدثنى ابى قال سمعت ابا غاديه يقول بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ابو سعيد فقلت له يمينك قال نعم قالا جمعيا فى الحديث وخطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم العقبة الحديث یعنی ربیعہ بن کلثوم کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ نے حدیث بیان کی کہ میں نےابوعادیہ سےسنا، وہ کہتےتھے کہ میں نےرسول اللہﷺ سےبیعت کی پس میں نے ابوغادیہ سےکہا کیا آپ نے اپنے داہنےہاتھ سےرسول اللہ ﷺ سےبیعت کی تھی۔
انہوں نےکہاہاں۔
یہ روایت صحیح ہےاس کےسب راوی ثقہ ہیں۔
اس روایت سےبھی بیعت کےوقت ایک ہی ہاتھ سے(یعنی داہنے ہاتھ سے)
مصافحہ کامسنون ہونا بصراحت ثابت ہے۔
پس اسی سےمصافحہ ملاقات کابھی ایک ہی ہاتھ (یعنی داہنے ہاتھ)
سےمسنون ہوناثابت ہوا۔
کمامر۔
چھٹی روایت:
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر ؓ سےروایت ہے وكان بيعة الرضوان بعد ماذهب عثمان الى مكة فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم بيده اليمني هذه يدعثمان فضرب بها يده فقال هذه لعثمان الحديث یعنی عثمان کےمکہ چلے جانے کےبعدبیعۃ الرضوان ہوئی۔
پس رسو ل اللہ ﷺ نےاپنے داہنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرکےفرمایا کہ یہ میرا داہناہاتھ عثمان کےہاتھ ہے۔
پھر آپ نےاپنے داہنے ہاتھ کواپنے دوسرے ہاتھ پرمارا اور فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کےلیے ہے۔
ا س حدیث سےبھی ایک ہاتھ سےمصافحہ کامسنون ہونا ثابت ہےا س لیے کہ آپ کاداہنا ہاتھ توبجائے ایک ہاتھ عثمان کےتھا اوردوسرا خود آ پ کا۔
فتفکر۔
ساتویں روایت:
مسند احمدبن حنبل، ص: 471؍ج: 3 میں ہے عن حبان ابىاالنضر قال دخلت مع واثلة بن الاسقع على ابى اسود الجرشي فى مرضه الذي متات فيه فسلم عليه فاخذا ابو الاسود يمين واثلة فمسح بها عينيه ووجهه لبيعة بها رسو ل الله صلى الله عليه وسلم الحديث- یعنی حبان کہتے ہیں کہ میں واثلہ کےساتھ ابوالاسود کےپاس ان کےمرض الموت میں گیا۔
پس واثلہ نےان کو سلام کیا اور بیٹھےپس ابوالاسود نےواثلہ کےداہنے ہاتھ کوپکڑا اوراس کواپنی دونوں آنکھوں اورمنہ سےلگایا اس واسطے کہ واثلہ نے اپنے اسی داہنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ سےبیعت کی تھی اس روایت سےبھی داہنے ہاتھ سےمصافحہ بیعت کا مسنون ہونا بصراحت ثابت ہے۔
پس اسی سےمصافحہ ملاقات کابھی ایک ہی ہاتھ سےمسنون ہونا ظاہر ہے۔
آٹھویں روایت:
حدثنا اسحاق بن سيار قال حدثنا عبيدالله قال انبا سفين عن زيادبن علاقة قال سمعت جرير ا يحدث حين مات المغيرة بن شعبة خطب الناس فقال اوصيكم بتقوى الله وحده لا شريك له والسكينة والوقار فانى بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدى هذه على الاسلام واشترط على النصح لكل مسلم فورب الكعبة انى لكم ناصح اجمعين واستغفر ونزل یعنی زیادبن علاقہ سےروایت ہے کہ جب مغیرہ نےانتقال کیا توجریر نےخطبہ پڑھا اور کہا (اےلوگو!)
میں تم کواللہ وحدہ لاشریک لہ سےڈرنے اورسکون اوروقار کی وصیت کرتاہوں۔
میں نےرسول اللہ ﷺ سےاپنےا س ایک ہاتھ سےاسلام پر بیعت کی ہے اور رسول اللہ ﷺ نےمجھ سےہرمسلمان کےواسطے خیرخواہی کرنے کی شرط کی ہے پس رب کعبہ کی قسم ہے! میں نے تم لوگوں کاخیر خواہ ہوں اور استغفار کیا اور اترے اس روایت سےبھی ایک ہاتھ سے مصافحہ کامسنون ہونا زظاہر ہے۔
نویں روایت:
سنن ابن ماجہ میں ہےعن عقبة بن صهبان سمعت عثمان بن عفان يقول ماتغنيت ولا تمنيت ولا مسست ذكرى بيمني منذ بايعت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم یعنی عقبہ بن صہبان روایت کرتےہیں کہ میں نے عثمان کوسنا وہ کہتے تھےکہ جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سےاپنے داہنے ہاتھ سے بیعت کی ہے تب سے میں نےنہ تغنی کی اورنہ جھوٹ بولا اورنہ اپنے داہنے ہاتھ سےاپنے ذکر کوچھوا۔
اس روایت سے بھی مصافحہ ملاقات کاایک ہاتھ یعنی داہنے سےمسنون ہونا ظاہر ہے۔
دسویں روایت:
کنز العمال، ص: 82 ؍ ج: 1 میں ہے عن انس قال بايعت النبى صلى الله عليه وسلم بيدى هذه على السمع والطاعة فيما التطعت (ابن جرير)
یعنی انس سےروایت ہےکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سےبیعت کی اپنے ا س ایک ہاتھ سے سمع اور اطاعت پربقدر استطاعت کے۔
روایت کیا اس کوابن جریر نے۔
اس روایت سےبھی ایک ہاتھ سےمصافحہ ملاقات کامسنون ہونا ظاہر ہے۔
گیارہویں روایت:
کنزتالعمال میں ہے عن عبدالله بن حكيم قال بايعت عمر بيدى هذاه على السمع واطاعة فيما استطعت (ابن سعد)
یعنی عبداللہ بن حکیم روایت کرتے ہیں کہ میں نے عمر سےبیعت کی اپنے ایک ہاتھ سےسمع اور طاعت پربقدر اپنی استطاعت کے۔
روایت کیا اس کو ابن سعد نے۔
اس روایت سےبھی بیعت کےوقت ایک ہاتھ سےمصافحہ کامسنون ہونا ظاہر ہےاور اسی سےمصافحہ ملاقات کابھی ایک ہا تھ سے مسنون ہوناثابت ہوتاہے۔
کمامر۔
واضح ہوکہ دسویں اورگیارہویں روایت میں اگرچہ داہنے ہاتھ کی تصریح نہیں ہے۔
مگر روایات مذکورہ بالا بتاتی ہیں کہ ان دونوں رویتوں میں ایک ہاتھ سے مراد داہنا ہاتھ ہےونیز واضح ہوکہ بیعت کی روایات مذکورہ میں بعض روایتیں استشہاداً پیش کی گئی ہیں۔
نیز واضح ہوکہ مصافحہ بیعت کےایک ہاتھ سے مسنون ہونے کےبارے میں اور بھی بہت سےروایات مرفوعہ وموقوفہ آئی ہیں اورجس قدر یہاں نقل کی گئی ہیں وہ اثبات مطلوب کےواسطے کافی و وافی ہیں۔
بارہویں روایت:
کتاب الترغیب والترہیب میں ہے عن سلمان الفارسى عن النبى صلى الله عليه وسلم قال ان المسلم اذالقى اخاه فاخذبيده تحاتت عنهما ذنوبهما كما يتحات الورق عن الشجرة اليابيةفى يوم ريح عاصف رواه الطبرانى باسناد حسن-یعنی سلمان فارسی سےروایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نےفرمایا کہ جب کوئی مسلمان اپنےبھائی سےملاقات کرتاہے اوراس کا ہاتھ پکڑتا ہے توا ن دونوں کےگناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح سخت ہواکےدن سوکھے درخت سےپتے جھٹرتے ہیں۔
اس حدیث کو طبرانی نےباسناد حسن روایت کیا ہے۔
اس حدیث سےبھی ایک ہاتھ سےمصافحہ کامسنون ہونا ظاہر ہےکیونکہ اس میں لفظ یدبصیغہ واحد ہےاور صیغہ واحد فرد واحد پردلالت کرتا ہے۔
واضح ہوکہ مصافحہ کی جن جن احادیث میں لفظ یدواقع ہواہے بصیغہ واحد ہی واقع ہوا ہے۔
مصافحہ کی کسی حدیث میں لفظ ید بصیغہ تثنیہ نہیں واقع ہواہے۔
ومن ادعی خلافہ فعلیہ البیان پس اس قسم کی تما م احادیث ہمارے مدعا کی مثبت ہیں۔
تیرہویں روایت:
جامع ترمذی میں ہے۔
عن البراء بن عازب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مامن مسلمين يلتقيان فيتصافحان الاغفرلهما قبل ان يتفرقا قال الترمذى هذا حديث حسن غريب یعنی براء بن عازب سےروایت ہےکہ فرمایا رسو ل اللہ ﷺنے کہ جب دومسلمان باہم ملاقات کرتے ہیں پس مصافحہ کرتےہیں توقبل اس کے کہ ایک دوسرے سےجدا ہوں ان دونوں کی مغفرت کی جاتی ہے۔
ترمذی نےکہا یہ حدیث حسن غریب ہے۔
اس حدیث سےاور اس کےسواتمام ان احادیث سے جن میں مطلق مصافحہ کا ذکر ہےاور ید اورکف کی تصریح نہیں ہے۔
ایک ہی ہاتھ کا مصفافحہ ثابت ہوتاہے اوران احادیث سےدونوں ہاتھ کےمصافحہ کا ثبوت نہیں ہوتا۔
اس واسطے کہ اہل لغت اورشراح حدیث نےمصافحہ کےجومعنی لکھے ہیں وہ دونوں ہاتھ کےمصافحہ پر صادق نہیں آتے اورایک ہاتھ کےمصافحہ پرجس طرح اہل حدیث میں مروج ہےبخوبی صادق آتے ہیں۔
اب پہلے مصافحہ کےمعنی سنو۔
علامہ مرتضیٰ زبیدی حنفی تاج العروس شرح قاموس میں لکھتے ہیں۔
الرجل يصافح الرجل اذ وضع صفح كفه فى صفح كفه وصفحا كفيهما وجها هما ومنه حديث المصافحة عنداللقاء وهى مفاعلة من صفح الكف بالكف وقبال الوجه على الوجه كذا فى اللسان والاساس والتهذيب فلا يلتفت الى من زعم ان المصافحة غير عربى انتهى ملا علی قاری حنفی مرقاۃ شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں:
المصافحة هى الافضاء فلا يلتفت الى صفحة اليد حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں هى مفاعلة من الصفحة المراد بها الافضاء بصفحة اليد الى صفحة اليد ابن الاثير نہایہ میں لکھتے ہیں۔
هى مفاعلة من الصاق صفح الكف بالكف واقبال الوجه۔
ان عبارات کاخلاصہ اور حاصل یہ ہے کہ مصافحہ کےمعنی ہیں بطن کف کوبطن کف سےملانا۔
پس اس سےمعلوم ہواکہ پشت کف کوپشت کف سےیا بطن کف پشت کف سےملانے کومصافحہ نہیں کہیں گے۔
جب تم مصافحہ کےمعنی معلوم کرچکے توسنو کہ مصافحہ کےمعنی کا مصافحہ مروجہ عند اہل الحدیث پرصادق آنا توظاہر رہا ہے رہا دونوں ہاتھ سے مصافحہ سو اس کودو صورت ہیں،ایک یہ کہ داہنے ہاتھ کےبطن کف کوداہنے ہاتھ کےبطن کف سےملایاجائے اورمصافحین میں سےہرایک اپنے بائیں ہاتھ کےبطن کف کو دوسرے کےداہنے ہاتھ کےپشت کف سے ملائے۔
اس صورت کامصافحہ اس زمانہ کےاکثر احناف میں مروج ہے اوراس کےثبوت میں حضرت ابن مسعود کی یہ روایت علمني النبى صلى الله عليه وسلم وكفى بين كفيه التشهيد پیش کی جاتی ہے اوردوسری صورت یہ ہےکہ داہنے ہاتھ کے بطن کف کوداہنے ہاتھ کےبطن کف سےاور بائیں ہاتھ کےبطن کف کوبائیں ہاتھ کے بطن کف سےملایا جائے اورمصافحین میں سے ایک کےدونوں ہاتھ مقراض کےہوں۔
اس مقراض صورت کا مصافحہ اس زمانے کےبعض احناف میں رائج ہے۔
ان دونوں صورتوں میں سے پہلی صورت میں فقط داہنے ہاتھ کےبطن کف کوداہنے ہاتھ کےبطن کف سےملانے برمصافحہ کےمعنی صادق آتےہیں اورباقی زائد ہےجس کومصافحہ سےکچھ تعلق نہیں ہے۔
رہی دوسری صورت سواولاً اس کوپہلی صورت کےقائلین کی دلیل مذکورباطل کرتی ہے ثانیا ً یہ مقراض مصافحہ نہیں ہے۔
بلکہ دو مصافحہ ہےکیونکہ داہنے ہاتھ کابطن کف داہنے ہاتھ کےبطن کف سےملتا ہےاور مصافحہ کی تعریف (الا فضاء بصفحة اليد الى صفحة اليد)
صادق آتی ہے لہذا یہ ایک مصافحہ ہوا اور بائیں ہاتھ کابطن کف بائیں ہاتھ کےبطن کف سےملتا ہے اوراس بربھی مصافحہ کی تعریف صادق آتی ہے۔
لہذا یہ بھی ایک مصافحہ ہوا پس مقراض مصافحہ میں بلاشبہ دو مصافحہ ہوتے ہیں اوراگرچہ مصافحہ کےجو معنی اہل لغت نےبیان کئے ہیں شرع نےاس سےدوسرے معنی کی طرف نقل کیا ہےلیکن شرع نےمصافحہ کےلیے داہنے ہاتھ کوضرور متعین کیا ہے۔
جیسا کہ روایات مذکورہ بالا سےواضح ہے۔
بنا علیہ اس مقراض مصافحہ میں بائیں ہاتھ کےبطن کف کوبائیں ہاتھ کےبطن کف سےملانا ہے ہمارے اتنے بیان سےصرف ظاہر ہواکہ براء بن عازب کی حدیث مذکور ے نیز تمام ان احادیث سےجن میں مطلق مصافحہ مذکورہے اروید اورکف کی تصریح نہیں ہے۔
ایک ہی ہاتھ سےمصافحہ کامسنون ہونا ثابت ہوتاہے۔
فتفکر وتدبر۔
ہم نےایک ہاتھ کےمصافحہ کی سنت کی اثبات میں تیرہ روایتیں پیش کی ہیں ان کےسوااور بھی روایتیں ہیں لیکن اس قدر اثبات مطلوب کےلیے کافی ووافی ہیں۔
اب ہم ہاتھ سےمصافحہ کےمسنون یامستحب ہونے کےمتعلق علماء وفقہاء کےچند اقوال بیان کر دینا مناسب سمجھتے ہیں۔
ایک ہاتھ سے مصافحہ کےمسنون یا مستحب ہونےکے متعلق علماء وفقہاء کےاقوال علامہ ابن شامی  حنفی کاقول:
آپ رد المختار حاشیہ در مختار میں لکھتے ہیں قوله(فان لم يقدر)
اى على تقلبيله الا بالايذاء او مطلقا يضع يديه عليه ثم يقبلهما اويضع احدى هما والاولى ان تكون اليمني لانها المستعملة فيما فيه شرف ولما نقل عن البحر العميق من ان الحجر يمين الله يصافح بها عباده والمصافحة باليمنى انتهى یعنی اگر حجر اسود کےچومنےپرقدرت نہ ہو یا قدرت ہومگر ایذا کےساتھ توان دونوں صورتوں میں طوافہ کرنےوالا حجر اسود پراپنے دونوں ہاتھوں کورکھےپھر ہاتھوں کورکھے پھر ہاتھوں کوچومے یاصرف ایک ہاتھ رکھے اوراولیٰ یہ ہےکہ حجر اسود پرداہنے ہاتھ رکھے اس واسطے کہ داہنا ہی ہاتھ شریف کاموں میں مستعمل ہوتاہے اوراس واسطے کہ بحر عمیق سےنقل کیا گیا ہےکہ حجراسودر اللہ تعالیٰ کاداہنا ہاتھ ہےاس سےاس کےبندے مصافحہ کرتےہیں اور مصافحہ داہنے ہاتھ سے ہے۔
علامہ بدرالدین عینی  حنفی کاقول:
آپ بنا یہ شرح ہدایہ میں لکھتےہیں:
۔
اتفق العلماء على انه يستحب تقديم اليمنى فى كل ماهو من باب التكريم كالوضوء والغسل ولبس الثوب والنعل والخف والسراويل ودخول المسجد والسواك والاكتحال واتقليم الاظفار وقص الشارب نتف الابط وحلق الرأس والسلام من الصلوة والخروج من الخلاء والاكل والشرب والمصافحة والستلام الحجروالاخذ والعطاء وغيره ذلك مما هوفى معناه ويستحب تقديم اليسار فى ضد ذلك انتهى-یعنی علماء نےاس بات پر اتفاق کیاہےکہ تمام ان امور میں جوبات تکریم سےہیں داہنے ہاتھ کامقدم کرنا مستحب ہےجیسے وضواورغسل کرنااورکپڑا اورجوتا اورموزہ اور پائجامہ پہننااور مسجد میں داخل ہونااورمسواک کرنااورسرمہ لگانا اور ناخون اورلب کےبال تراشنا اوربغل کےبال اکھیڑنا اورسرمنڈنااور نماز سےسلام پھیرنا اورپائخانہ سےنکلنا اورکھانا اورپینا اورمصافحہ کرنا اورحجراسود کابوسہ لینا اوردینا وغیرہ اوران کاموں میں جوان امور کےخلاف ہیں بائیں کامقدم کرنامستحب ہے۔
علامہ ضیاء الدین حنفی نقشبندی  کاقول:
آپ اپنی کتاب لوامع العقول شرح رموزالحدیث میں لکھتے ہیں:
۔
والظاهر من اداب الشريعة تعيين اليمنى من الجانبين لحصول السنة كذلك فلا تحصل باليسرى فى اليسرى ولا فى اليمنى انتهى ذكره تحت حديث اذا التقى المسلمان فتصافحا وحمد االله الحديث – یعنی آداب شریعت سےظاہر یہی ہےکہ مصافحہ کےمسنون ہونےکے لیے دونوں جانب سےداہنا ہاتھ متعین ہےپس اگر دونوں جانب سےبایاں ہاتھ ملایا گیایا ایک جانب سےداہنا اورایک طرف سےبایاں تومصافحہ مسنون نہیں ہوگا۔
علامہ عبدالرؤف مناوی  کاقول:
آ پ اپنی کتاب الروض النضیر شرح جامع صغیر میں لکھتے ہیں۔
ولا تحصل السنة الا بوضع اليمنى فى اليمنى حيث لاعذر انتهى یعنی مصافحہ مسنون نہیں ہوگا مگر اسی صورت سے کہ داہنے ہاتھ کوداہنے ہاتھ میں رکھاجائے جب کےکوئ عذر نہ ہو۔
علامہ عزیزی  کاقول:
آپ اپنی کتاب السراج المنیر شرح جامع صغیر میں حدیث لقاء حاج کی شرح میں لکھتے ہیں اذا لقيت الحاج اى عند قدومه من حجه فسلم عليه وصافحه اى ضع يديك اليمنى فى يده اليمنى انتهى –یعنی جب تو حاجی سےملاقات کرے یعنی حج سےآنے کےوقت تواس پرسلام کراور اس سے مصافحہ کریعنی اپنے داہنے ہاتھ کواس کے داہنے ہاتھ میں رکھ۔
علامہ ابن ارسلان  کاقول:
علامہ علقمی  کتاب الکوکب المنیر شرح جامع صغیر میں حدیث اذا التقى المسلمان فتصافحا الخ کےتحت میں لکھتےہیں قال ابن اسلان ولا تحصل هذه السنة الا بان يقع بشره احد الكفين على الاخرانتهى یعنی مصافحہ کی سنت حاصل نہیں ہوگی مگر اسی طورسے کہ ایک ہتھیلی کابشرہ دوسری ہتھیلی کےبشرہ پررکھا جائے۔
علامہ ابن حجر کاقول:
آپ المنہج القوم شرح مسائل التعلیم میں لکھتے ہیں۔
يسن التيامن بالوضوء لانه صلى الله عليه وسلم كان يحب التيامن فى شانه كله مما هومن باب التكريم كتسريح شعر وطهور واكتحال وحلق ونتف ابط وقص شارب ولبس نحو نعل وثوب وتقليم ظفر ومصافحة واخده عطاء ويكره ترك التيامن انتهى اس عبارت کا حاصل وہی ہےجو عینی کی عبارت کا حاصل ہے۔
امام نووی کاقول:
علامہ عبداللہ بن سلیمان الیمی الزبیدی اپنے رسالہ مصافحہ میں لکھتے ہیں قال النووى يستحب ان تكون المصافحة باليمنى وهوا فضل انتهى –یعنی نووی نےکہا کہ داہنے ہاتھ ےسےمصافحہ کرنامستحب ہےاوریہی افضل ہے۔
اب ہم آخرمیں جناب قطب ربانی مولانا شیخ سید عبدالقادر جیلانی (جو پیران پیرکےلقب سےمشہور ہیں اور ایک عالم ارادت مندہے)
کا قول نقل کرکے پہلے باب کوختم کرتےہیں۔
جناب قطب ربانی مولانا شیخ سید عبدالقادر جیلانی کاقول:
آپ اپنی بےنظیر کتاب غنیۃ الطالبین میں لکھتے ہیں۔
فصل فيما يستحب فعله بيمينه وما يستحب فعله بشماله يستحب له تناول الاشياء بيمينه والاكل الشرب والمصافحة البداءة بها فى الوضوء والانتعال ولبس الثياب وكذلك يبدافى الدخول الى الموضع المباركة كالمسجد والمشاهد والمنازل والد وربرجله اليمنى واما الشمال فلفعل الااشياء المستقدوره وازالة الدون والاستنثار والاستنجاءى وتنقيه الانف وغسل النجاسات كلها الا ان يشق ذلك اويتعذ ركالمشلول والمقطوع يساره فيفعله بييمنه انتهى-یعنی یہ فصل ہےان امور کےبیان میں جن کاداہنے ہاتھ سےکرنا مستحب ہے اوران امور کےبیان میں جن کابائیں ہاتھ سےکرنا مستحب ہے۔
مسلمان کےلیے چیزوں کولینا اورکھانا اورپینا اورمصافحہ کرنا داہنے ہاتھ سےمستحب ہےاور وضو کرنےمیں اورجوتے اورکپڑے پہننے میں داہنی طرف سےشروع کرنا مستحب ہےاور اسی متبرک مقامات جیسےمسجد اورمجلس اورمنزل اورگھر میں داخل ہونےمیں داہنے پیر سےشروع کرنا ڈچاہیے اورلیکن بایاں ہاتھ سوان چیزوں کے کرنے کےلیے ہےجو مستقدر ہیں اور میل کےدورکرنے کےلیے ہے جیسے ناک جھاڑنا اور استنجاء کرنا اورناک صاف کرنا اورتمام نجاستوں کادھونا مگر جس صورت میں بائیں ہاتھ سےان کاموں کاکرنا دشوار ہویا نہ ہوسکے جیسے وہ شخص کابایاں ہاتھ شل ہوگیا ہویا وہ شخص جس کابایاں ہاتھ کٹ گیا ہوتو اس صورت میں ان کاموں کو (مجبورا)
داہنے ہاتھ سےکرے۔
کہاں ہیں سلسلہ قادریہ کےمرید ان اورکدھر ہیں حضرت پیراں پیر کےرادت مندان اپنے پیرودستگیر کےاس قول کوبغور وعبرت ملاحظہ فرمائیں اوراگر اپنی رادت اورعقیدت میں سچے ہیں تواس کے مطابق عمل کریں اور ایک ہاتھ کےمصافحہ کی نسبت یا اس کے عاملین کےنسبت اپنی زبان سےجو ناملائم الفاظ نکالے ہوں ان کوندامت کےساتھ واپس لیں۔
والله الهادى الى الحق- دو ہاتھ سےمصافحہ والوں کی دلیل اور اس کاجواب صحیحن میں ابن مسعود سےمروی ہےعلمنى النبى صلى الله عليه وسلم كفى بين كفيه التشهيد –یعنی ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نےمجھے تشہید کی تعلیم ایسی حالت میں دی کہ میری ہتھیلی آ پ کی دونوں ہتھیلوں کےدرمیان تھی۔
اس دلیل کاجواب یہ ہے۔
قول ابن مسعود (کفی بین کفیہ)
میں لفظ کف سےظاہر یہ ہےکہ ان کے کی فقط ایک ہتھیلی مراد ہےاور مطلب یہ ہے کہ حالت تعلیم تشہد میں ان مسعود کی فقط ایک ہتھیلی رسول اللہ کی دونوں ہتھیلی میں تھی کیونکہ کفی میں کف میں مفرد ہےاور فرد واحد پردلالت کرتاہے۔
نیز رسول اللہ ﷺ کےکف کوبصیعہ تثنیہ اوراپنےکف کوبصیغہ مفرد ذکر کرنا بھی ظاہر دلیل اسی امرکی ہے کہ لفظ کفی سےابن مسعود ایک ہی ہتھیلی مراد ہےنیز ابن مسعود کی اگر دونوں ہتھیلیاں آنحضرت کی دونوں متبرک ہتھلیوں میں ہوتیں ابن مسعود ضرور اس کی تصریح کرتے اوراہتمام اوراعتناء کےساتھ بلکہ کےساتھ فرماتے۔
کفای بین کفیہ یعنی میری دونوں ہتھیلیاں آنحضرت ﷺ کی دونوں ہتھیلیاں کےدرمیان تھیں۔
اس صورت میں وکفی بین کفیہ کہنے کاکوئی موقع نہیں تھا نیز ابن مسعود کی غرض وکفی بین کفیہ سےاس حالت اوروضع کابتانا ہےجس حالت اوروضع کےساتھ رسو ل اللہ نےان کوتشہد کی تعلیم دی تھی پس اگر تعلیم دی تھی پس اگر تعلیم تشہد کےوقت حالت یہ تھی کہ ابن مسعود کی دونوں ہتھلیاں آنحضرت ﷺکی نے ان کو تشہد کی تعلیم دی تھی پس اگر تعلیم تشہد کےوقت حالت یہ تھی کہ ابن مسعود کی دونوں ہتھیلیاں آنحضرت ﷺ کی دونوں ہتھیلیوں کےدرمیان تھیں توابن مسعود وکفا بین کفیہ فرماتے کیونکہ خاص اس حالت پرلفظ وکفی بین کفیہ صراحتا ونصا دلالت نہیں کرتاہے۔
پس جب معلوم ہواکہ ابن مسعود کےقول مذکور میں کفی سےان کی فقط ایک ہتھیلی مراد ہے اورمطلب یہ ہےکہ ابن مسعودﷺ کی فقط ایک ہتھیلی آنحضرت ﷺ کےدونوں ہتھیلیوں کےدرمیان تھی توظاہر ہے کہ اس دلیل سےدونوں ہاتھ سےمصافحہ والوں کادعوی ٰے کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ لوگ اس طرح کے مصافحہ کے قائل نہیں بلکہ اس مصافحہ کےقائل ہیں جس میں دونوں جانب سےدودو ہتھیلیاں ملائی جائیں پس جوان لوگوں کادعویٰ ہےوہ اس دلیل سےثابت نہیں ہوتا اورجوثابت ہوتاہےوہ ان کا دعویٰ نہیں۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتےہیں۔
وَوَجْهُ إِدْخَالِ هَذَا الْحَدِيثِ(اى حديث عبدالله بن هشام)
فِي الْمُصَافَحَةِ أَنَّ الْأَخْذَ بِالْيَدِ يَسْتَلْزِمُ الْتِقَاءَ صَفْحَةِ الْيَدِ بِصَفْحَةِ الْيَدِ غَالِبًا وَمِنْ ثَمَّ أَفْرَدَهَا بِتَرْجَمَةٍ تَلِي هَذِهِ لِجَوَازِ وُقُوعِ الْأَخْذِ بِالْيَدِ مِنْ غير حُصُول المصافحة اورعلامہ قسطلانی ارشادالساری میں لکھتے ہیں ولما كان الاخذ باليد يجوز ان يقع من غير حصول المصافحة افرد بهذالباب ان عبارتوں کاخلاصہ یہ ہے کہ چونکہ ہاتھ کا پکڑنا ہوسکتاہے کہ بغیر حصول مصافحہ ہو اس لیے کہ امام بخاری نے اس کا ایک علیحدہ باب منقعد کیااورمولوی عبدالحئی صاحب حنفی مجموعہ فتاریٰ میں لکھتے ہیں وآنچہ درصحیح بخاری در باب مذکور از عبداللہ بن مسعود مروی است علمنى رسول الله صلى الله عليه وسلم وكفى بين كفيه التشهيد كما يعلمنى السورة من القرآن التحصيات لله والصلوات والطيبات الحديث-پس ظاہر آنست کہ مصافحہ متوارثہ کہ بقوت تلافی مسنون است ببودہ بلکہ طریقہ تعلمیہ بودہ کہ اکابر بوقت اہتمام تعلیم چیزے ازہردودست یایک دست دست اصاغر گرفتہ تعلیم می سازندہ یعنی صحیح بخاری میں جو عبداللہ بن مسعود سےمروی ہےکہ رسول اللہﷺ نے مجھے تشہد سکھلایا اس حالت م میں کہ میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں میں تھی سوظاہریہ ہےکہ یہ مصافحہ متوارثہ جوبوقت ملاقات مسنون ہےنہیں تھا بلکہ طریقہ تعلیمیہ تھا کہ اکابر کسی چیز کےاہتمام تعلیم کےوقت دونوں ہاتھ سےیا ایک ہاتھ سےاصاغر کاہاتھ پکڑ کرتعلیم کرتے ہیں اورمولوی صاحب موصوف کےعلاوہ اجلہ فقہائے حنفیہ نےبھی اس امر کی تصریح کی ہےکہ رسول اللہ ﷺ کااپنے دونوں کفوں میں ابن مسعود کےکف کوپکڑنا مزید اہتمام وتاکید تعلیم کےلیے تھا اوران لوگوں میں سے کسی نےیہ نہیں لکھا کہ یہ علی سبیل المصافحہ تھا۔
ہدایہ میں ہے والاخذ بهذا (اى يتشهد ابن مسعود)
اولى من الاخذ بتشهد ابن عباس رضلى الله عنهما لان فيه الامرواقله الاستحباب والالف واللام وهما للاستغراق وزيادة الواووهى لتجديد الكلام كما فى القسم و تاكيد التعليم انتهى –علامہ ابن الہمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں قوله وتاكيد التعليم يعنى به اخذه بيدة التوكيد ليس فى تشهد ابن عباس انتهى –حافظ زیلعی تخریج ہدایہ میں لکھتے ہیں۔
ومنها(اى من ترجيح تشهد ابن مسعود على ابن عباس)
انه قال فيه علمنى التشهد وكفى بين اكفيه ولم يقل ذلك فى غيره فدل على مزيد الاعتناء والاهتمام به انتهى حافظ ابن حجر درایہ میں لکھتے ہیں واما تاكيد التعليم ففى تشهد ابن عباس ايضا عند منسلم فسلم للمصنف النان وبقى اثنان الاان يريد بتاكيد التعليم قوله كفى بين كفيه فهى زائدة له انتهى –اورکفایہ حاشیہ ہدایہ میں ہے۔
وتاكيد التعليم فانه روى عن محمد بن الحسن انه قال اخذ يوسف بيدى وعلمنى التشهد وقال اخذابوحنيفه بيدى فعلمنى التشهد وقال ابوحنيفة اخذ حماد بيدي ععلمنى التشهد وقال حماد اخذ علقمخة بيدى وعلمنى التشهد وقال علقمة اخذ ابن مسعود بيدى فعلمنى التشهد وقال ابن مسعود اخذرسول الله صلى الله عليه وسلم بيدى وعلمنى التشهد الخ-ان عبارتوں سےصاف واضح ہےکہ کہ رسول اللہﷺ کاابن مسعود کےکف کواپنے دونوں میں کفوں میں پکڑنا مزید اہتما م تعلیم کےلیے تھا اورعلی سبیل المصافحہ نہیں تھا اوروہاں واضح رہےکہ رسول اللہﷺ کاہاتھ پکڑکرتعلیم کرنا متعدد احادیث سےثابت ہے از آنجملہ مسند احمد بن حنبل،ص: 78؍ ج: 5 کی ایک یہ روایت ہے۔
حدثنا عبدالله حدثنى ابى ثنا اسماعيل ثنا سليمن بن المغيرة عن حميد بن هلال عن ابى قتادة وابى الدهماء قالا كانا يكثر ان السفر ر نحو هذا البيت قالا اتينا على رجل من اهل البادية فقال البدرى اخذ رسول الله بيدى فجعل يعلمنى مما علمه الله تبارك وتعالى انك لن تدع شيئا اتقاءالله جل وعزالااعطاك الله خيرا منه-یعنی ابوقتادہ اور ابوالدہماء کہتے ہیں کہ ہم دونوں ایک بدوی شخص کےپاس آئے تواس بدوی نےکہا کہ رسول اللہ ﷺ نےمیراہ ہاتھ پکڑاپس مجھے تعلیم کرنے لگے ان باتوں کی جن کی اللہ تعالی نےآپ کوتعلیم دی تھی اورفرمایا کہ جب تو اللہ تعالیٰ کےڈر سےکسی چیز کو چھوڑ دے گاتو ضرور اللہ تعالیٰ اس چیز سےبہترکوئی چیز تجھے عطاکرے گا۔
اگر کوئی کہےکہ صحیح بخاری میں سےدونوں ہاتھ کامصافحہ ثابت ہےاس واسطے کہ امام بخاری نےاپنی صحیح میں لکھا ہے۔
باب الاخذ بالیدین وصافح حماد بن زید ابن المبارک بیدیہ۔
یعنی باب دونوں ہاتھوں کےپکڑنے کے بیان میں اورحماد بن زید نے ابن المبارک سے اپنے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔
پھر بعد میں اس کےامام بخاری نے ابن مسعود کی حدیث مذکورکوذکرکیاہے۔
پس جب صحیح بخاری میں امام بخار ی کے اس باب سےدونوں ہاتھ کامصافحہ ثابت ہے تواس کےقابل قبول وقابل عمل ہونے میں کیاشبہ ہوسکتا ہے۔
تواس کےدوجواب ہیں۔
پہلا جواب یہ ہےکہ بخاری کواس باب میں تین امر مذکورہیں ایک امام بخاری کی تبویب یعنی امام بخاری کایہ قول کہ باب دونوں ہاتھ کےپکڑنےکا بیان میں،، دوسرے حماد بن زید کااثر۔
تیسرے ابن مسعود کی حدیث مذکور۔
امام بخاری کی مجرد تبویب سے دونوں ہاتھ کےمصافحہ کاثابت ہوناظاہر ہےکیونکہ مصنفین کی تبویب ان کادعویٰ ہوتا ہے جو بلادلیل کسی طرح قابل قبول نہیں۔
اس کےعلاوہ مجرد دونوں باتھوں کےپکڑنے کانام مصافحہ نہیں ہے۔
دونوں ہاتھ کے پکڑنے سےدونوں ہاتھ کےمصافحہ کاحصول ضروری نہیں ہے اورحماد بن زید کےاثر سےبھی دونوں ہاتھ کامصافحہ کسی طرح ثابت نہیں ہوسکتا۔
دیکھوپانچویں دلیل کاجواب رہی ابن مسعود کی حدیث مذکورسواس سےبھی دونوں ہاتھ کامصافحہ کسی حدیث ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ تم کو اوپرمعلوم ہوچکاہے۔
پس یہ کہنا کہ دونوں ہاتھ کامصافحہ صحیح بخاری سےثابت ہےصاف دھوکادینا اورلوگوں کومغالطہ میں ڈالنا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہےکہ امام بخاری کےاس باب سے دونوں ہاتھ کے مصافحہ کاثبوت تین امر پرموقوف ہے۔
ایک یہ کہ اس باب میں لفظ بالیدین کی بابت صحیح بخاری کےنسخ متفق ہوں یعنی کہ ایسا نہ ہوکہ بعض نسخوں میں بالیدین بصیغہ تثنیہ ہواور بعض میں بالیدین بصیغہ واحدہو۔
دوسرےیہ کہ اخذبالیدین سےامام بخاری  کامقصود ومصافحہ بالیدین ہو۔
تیسرے یہ کہ امام بخاری  کایہ مقصود کسی حدیث مرفوع سےثابت بھی ہو۔
اگریہ تینوں امرثابت بھی نہیں۔
توبلاشبہ امام بخاری  کےاس باب سےدونوں ہاتھ مامصافحہ ثابت ہوگا۔
والا فلا۔
لیکن واضح رہےکہ ان تینوں امروں سےکوئی بھی ثابت نہیں۔
اس باب میں لفظ بالیدین کی بابت صحیح بخاری کےنسخ متفق نہیں ہیں بعض میں بالیدین بصیغہ تثنیہ واقع ہواہے اورب
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6265   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6265  
6265. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے تشہد سکھایا، اس وقت میرا ہاتھ آپ ﷺ کی دونوں ہتھیلوں کے درمیان تھا۔ یہ تشہد آپ نے اس انداز سے سکھایا جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ (وہ یہ ہے) تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادات اللہ تعالٰی کے لیے مخصوص ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، ہم پر سلام ہو اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ اس وقت ہم میں موجود تھے جب آپ وفات پا گئے تو ہم (خطاب کے صیغے کے بجائے) اس طرح پڑھنے لگے: ''السلام علی النبی ﷺ'' [صحيح بخاري، حديث نمبر:6265]
حدیث حاشیہ:
(1)
محدثین کے ہاں دوران تعلیم میں اگر استاد اپنے کسی شاگرد کا ہاتھ پکڑتا ہے تو یہ بھی مصافحہ کی ایک شکل ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث میں دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کو ثابت کیا ہے، لیکن اس میں افضل رتبے والے کے دونوں ہاتھ اور کم رتبے والے، یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ ہے، جبکہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کی مروجہ صورت یہ نہیں بلکہ اس کے لیے دونوں طرف سے دونوں ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے۔
(2)
ہمارے رجحان کے مطابق دونوں جانب سے ایک ایک ہاتھ سے مصافحہ مسنون عمل ہے اگرچہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا ناجائز نہیں بلکہ ہم اس میں وسعت کے قائل ہیں اور ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو مستحب کہتے ہیں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ بیان کرتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سے ملتے اور مصافحہ کرنے کے بعد اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ کھینچتے حتی کے وہ خود ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیتا اور اپنا چہرہ بھی اس کی جانب سے نہ پھیرتے حتی کہ وہ خود ہی اپنا چہرہ پھیر لیتا۔
(الزھد لابن المبارك، حدیث: 392، وفتح الباري: 68/11)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ملے جبکہ میں اس وقت جنبی تھا، آپ نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا اور عرض کی:
میں جنابت سے ہوں تو آپ نےفرمایا:
مسلمان نجس نہیں ہوتا۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي: 13/1، حدیث: 6)
یہ حدیث نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کے وقت مصافحے کے لیے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔
حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ تم لوگ میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو، میں نے اس ہتھیلی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا تھا۔
(مسند أحمد: 189/4)
یہ حدیث پہلے بیان ہوچکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب دو مسلمان آپس میں ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھ کا ہاتھ پکڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ ان کی دعاؤں پر توجہ دے اور ان کے ہاتھ علیحدہ ہونے سے پہلے انھیں معاف کر دے۔
(مسند أحمد: 142/3) (3)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسنون مصافحہ ایک ہاتھ سے ہے۔
اگرچہ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا بھی جائز ہے لیکن اسے مسنون ہونے کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6265