صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
30. بَابُ مَنْ أَجَابَ بِلَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ:
باب: کوئی بلائے تو جواب میں لفظ «لبيك» (حاضر) اور «سعديك» (آپ کی خدمت کے لیے مستعد) کہنا۔
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مُعَاذٍ، بِهَذَا.
‏‏‏‏ ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ بن دعامہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے معاذ رضی اللہ عنہ نے پھر وہی حدیث مذکورہ بالا بیان کی۔
حدیث نمبر: 6268
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا وَاللَّهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ عِشَاءً اسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، مَا أُحِبُّ أَنَّ أُحُدًا لِي ذَهَبًا يَأْتِي عَلَيَّ لَيْلَةٌ، أَوْ ثَلَاثٌ عِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ، إِلَّا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ: هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا"، وَأَرَانَا بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ"، قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" الْأَكْثَرُونَ هُمُ الْأَقَلُّونَ، إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا"، ثُمَّ قَالَ لِي:" مَكَانَكَ لَا تَبْرَحْ يَا أَبَا ذَرٍّ حَتَّى أَرْجِعَ"، فَانْطَلَقَ حَتَّى غَابَ عَنِّي، فَسَمِعْتُ صَوْتًا فَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَذْهَبَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَبْرَحْ، فَمَكُثْتُ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُ صَوْتًا خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ عُرِضَ لَكَ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَكَ، فَقُمْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ:" وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ"، قُلْتُ لِزَيْدٍ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ لَحَدَّثَنِيهِ أَبُو ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ، قَالَ الْأَعْمَشُ: وَحَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، نَحْوَهُ، وَقَالَ أَبُو شِهَابٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ: يَمْكُثُ عِنْدِي فَوْقَ ثَلَاثٍ.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے زید بن وہب نے بیان کیا (کہا کہ) واللہ ہم سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کالی پتھروں والی زمین پر چل رہا تھا کہ احد پہاڑ دکھائی دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! مجھے پسند نہیں کہ اگر احد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات بھی اس طرح گزر جائے یا تین رات کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی بچے۔ سوائے اس کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے محفوظ رکھ لوں میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں گا۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس کی کیفیت ہمیں اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر دکھائی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوذر! میں نے عرض کیا «لبيك وسعديك‏.‏» یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زیادہ جمع کرنے والے ہی (ثواب کی حیثیت سے) کم حاصل کرنے والے ہوں گے۔ سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں پر مال اس اس طرح یعنی کثرت کے ساتھ خرچ کرے۔ پھر فرمایا یہیں ٹھہرے رہو ابوذر! یہاں سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک میں واپس نہ آ جاؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی اور مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی پریشانی نہ پیش آ گئی ہو۔ اس لیے میں نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے) جانا چاہا لیکن فوراً ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آیا کہ یہاں سے نہ ہٹنا۔ چنانچہ میں وہیں رک گیا (جب آپ تشریف لائے تو) میں نے عرض کی۔ میں نے آواز سنی تھی اور مجھے خطرہ ہو گیا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی پریشانی نہ پیش آ جائے پھر مجھے آپ کا ارشاد یاد آیا اس لیے میں یہیں ٹھہر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ میرے پاس آئے تھے اور مجھے خبر دی ہے کہ میری امت کا جو شخص بھی اس حال میں مرے گا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو۔ (اعمش نے بیان کیا کہ) میں نے زید بن وہب سے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس حدیث کے راوی ابودرداء رضی اللہ عنہ ہیں؟ زید نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حدیث مجھ سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے مقام ربذہ میں بیان کی تھی۔ اعمش نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوصالح نے حدیث بیان کی اور ان سے ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے اسی طرح بیان کیا اور ابوشہاب نے اعمش سے بیان کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6268  
6268. حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں عشاء کے وقت نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے میدان میں چل رہا تھا کہ اچانک احد پہاڑ دکھائی دیا۔ آپ نے فرمایا: اے ابو زر! میں نہیں چاہتا کہ احد پہاڑ کے برابر ميرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات یا تین راتیں اس طرح گزر جائیں کہ اس میں اسے ایک دینار بھی میرے پاس باقی رہ جائے مگر وہ جو قرض ادا کرنے کے لیے محفوظ رکھوں، میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں۔ ابو ذر ؓ نے اس کی کیفیت اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر بیان کی۔ پھر آپ نے فرمایا: تم یہاں ہی رہو حتیٰ کہ مجھ سے غائب ہو گئے اس کے بعد میں نے ایک آواز سنی: مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی پریشانی نہ پیش آگئی ہو، اس لیے میں وہاں سے جانا چاہا لیکن مجھے فوراً آپ کی بات یاد آگئی کہ تم نے یہاں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6268]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں کئی ایک اصولی باتیں مذکور ہیں مثلا ً جو شخص خالص توحید والا شرک سے بچنے والا ہے وہ کسی بھی کبیرہ گناہ کی وجہ سے دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ پاک توحید کی برکت سے اس کے تمام گناہوں کو معاف کر دے۔
حدیث کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا طرز عمل مذکور ہے جو ہمیشہ اہل دنیا کے لئے مشعل راہ رہے گا آپ دنیا میں اولین انسان ہیں جنہوں نے سرمایہ داری و دولت پرستی پر اپنے قول وعمل سے ایسی ضرب لگائی کہ آ ج ساری دنیا اسی ڈگر پر چل پڑی ہے جیسا کہ اقبال مرحوم نے کہا ہے:
گيا دور سرمايہ داری گیا دکھا کر تماشہ مداری گیا
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6268   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6268  
6268. حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے مقام ربذہ میں بیان کیا کہ میں عشاء کے وقت نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے میدان میں چل رہا تھا کہ اچانک احد پہاڑ دکھائی دیا۔ آپ نے فرمایا: اے ابو زر! میں نہیں چاہتا کہ احد پہاڑ کے برابر ميرے پاس سونا ہو اور مجھ پر ایک رات یا تین راتیں اس طرح گزر جائیں کہ اس میں اسے ایک دینار بھی میرے پاس باقی رہ جائے مگر وہ جو قرض ادا کرنے کے لیے محفوظ رکھوں، میں اس سارے سونے کو اللہ کی مخلوق میں اس اس طرح تقسیم کر دوں۔ ابو ذر ؓ نے اس کی کیفیت اپنے ہاتھ سے لپ بھر کر بیان کی۔ پھر آپ نے فرمایا: تم یہاں ہی رہو حتیٰ کہ مجھ سے غائب ہو گئے اس کے بعد میں نے ایک آواز سنی: مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں رسول اللہ ﷺ کو کوئی پریشانی نہ پیش آگئی ہو، اس لیے میں وہاں سے جانا چاہا لیکن مجھے فوراً آپ کی بات یاد آگئی کہ تم نے یہاں سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6268]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ایک اصولی بات بیان ہوئی ہے کہ جو شخص خالص توحید اختیار کرنے والا ہو اور شرک سے کنارہ کشی کرتے ہوئے فوت ہو جائے وہ کسی بھی کبیرہ کی وجہ سے دوزخ میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ توحید کی برکت سے اس کے تمام گناہ معاف کر دے اور دوزخ میں جانے کے بغیر ہی اسے جنت میں داخل کر دے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ کلمۂ "لبیک" تعبدی ہے مگر جب کوئی صاحب فضل بلائے تو انسان یہ لفظ جواب میں بول سکتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلانے پر استعمال کیا تھا۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے بلانے پر"لبيك وسعديك" کے الفاظ بولے تھے۔
(سنن النسائي الکبریٰ: 254/6، رقم: 10864، وفتح الباري: 74/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6268