صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
31. بَابُ لاَ يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ:
باب: کوئی شخص کسی دوسرے بیٹھے ہوئے مسلمان بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے۔
حدیث نمبر: 6269
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يُقِيمُ الرَّجُلُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ خود وہاں بیٹھ جائے۔
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240  
´کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر مت بیٹھیں`
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا . متفق عليه»
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی دوسرے آدمی کو اس کی بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس میں بیٹھ جائے لیکن کھل جاؤ اور کشادگی کر لو۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1240]
تخریج:
[بخاري: 6270]،
[مسلم، السلام 5684]،
[بلوغ المرام: 1239]
[تحفة الاشراف 220/6]

مفردات:
«تفسحوا» آپس میں کھل جاؤ تاکہ آنے والا بیٹھ جائے۔
«توسعوا» ایک دوسرے کے ساتھ مل جاؤ تا کہ آنے والے کے لئے جگہ نکل آئے قالہ ابن ابی جمرہ [فتح]
«لا يقيم» نفی کا صیغہ ہے مگر اس سے مراد نہی ہے خصوصاً اس لئے کہ صحیح مسلم میں «لا يقيمن» کے الفاظ ہیں یعنی ہرگز نہ اٹھائے۔

فوائد:
اس سے مراد یہ نہیں کہ کسی کی مخصوص جگہ میں یا اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا آ کر بیٹھ جائے تو اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ وہاں بلا اجازت بیٹھنا تو اس کے لئے جائز ہی نہیں۔ اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں بیٹھنا ہر مسلمان کے لئے جائز ہے، مثلاً مسجد، حکام کی مجالس، اہل علم کے حلقہ ہائے درس، بازار میں تجارت کے لئے کوئی جگہ، دستکاری کے لئے کوئی جگہ، تفریحی مقامات، منیٰ، مزدلفہ، عرفات وغیرہ میں جو شخص پہلے آ کر بیٹھ جائے کسی کے لئے جائز نہیں کہ اسے اٹھا کر خود بیٹھ جائے۔
➋ جو شخص کسی دوسرے کو اٹھا کر خود بیٹھتا ہے یا تو اس لئے یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پر ترجیح دے رہا ہے اور یہ بات مسلمان کے لائق نہیں ہے۔
«وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ» وہ اپنے آپ پر (دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو۔ [59-الحشر:9]
یا پھر تکبر کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تواضع کا حکم دیا ہے۔
➌ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کے نتیجے میں دلوں کے اندر دوری اور بغض پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ جب کہ مومنوں کو باہمی محبت و اخوت کی تاکید کی گئی ہے۔
«لا يقيم» نہ اٹھائے کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص خود بخود اٹھ کر بیٹھنے کی پیشکش کرے تو وہاں بیٹھنا جائز ہے۔ البتہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس سے بھی اجتناب کرتے تھے اگر کوئی شخص ان کی خاطر اپنی جگہ سے اٹھتا تو وہ وہاں نہیں بیٹھتے تھے۔ [بخاري: 7470] مگر اہل علم نے ان کے اس عمل کو مزید احتیاط پر محمول کیا ہے کہ ممکن ہے وہ شخص خوش دلی سے نہ اٹھا ہو صرف شرم کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔
➎ اس حدیث میں سے پاگل اور بےوقوف مستثنیٰ ہیں اگر وہ مجلس علم کو خراب کر رہے ہوں یا مسجد کے ادب میں خلل انداز ہوں تو انہیں نکالنا درست ہے۔
«وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ»
اور بیوقوفوں کو اپنا مال نہ دو۔
مجلس علم کا مقام مال سے بہت زیادہ ہے۔ جب بےوقوفوں کو اس بات سے روکا جا سکتا ہے کہ وہ مال کو خراب کریں تو انہیں علم کی دولت خراب کرنے سے کیوں نہیں روکا جائے گا۔
➏ جو شخص بدبودار چیز کھا کر مسجد میں آئے۔ یا کسی کو تکلیف دے اسے مسجد سے نکالنا جائز ہے۔ جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے یہ سبزیاں تھوم، پیاز یا گندنا کھائی ہوں وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے۔ [مسلم عن جابر: مساجد 4]
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک جمعہ کے خطبہ کے آخر میں فرمایا: لوگو تم یہ دو پودے کھاتے ہو جنہیں میں تو خبیث (برا) ہی سمجھتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو محسوس کرتے تو اس کے متعلق حکم دیتے تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ [مسلم: مساجد: 78]
حقے اور سگریٹ کی بدبو تو پیاز اور لہسن سے کئی گنا تکلیف دہ ہوتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 36   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھے۔ (اگر جگہ کی کمی ہو تو) کھل جاؤ اور کشادہ ہو جاؤ۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1240»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأستئذان، باب لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه، حديث:6269، ومسلم، السلام، باب تحريم إقامة الإنسان من موضعه المباح الذي سبق إليه، حديث:2177.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مجلسی آداب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر مجلس میں جگہ کی کمی واقع ہو رہی ہے اور لوگوں کی آمد بدستور جاری ہے تو پہلے نشستوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ذرا سکڑ جائیں‘ ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں یا مجلس کے دائرے کو ذرا اور وسیع کر لیا جائے تاکہ آنے والے حضرات بھی بیٹھ سکیں‘ البتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک آدمی کسی ضرورت کے پیش نظر اپنی نشست چھوڑ کر ذرا دیر کے لیے باہر جائے تو دوسرا اس کی جگہ پر قبضہ جما لے۔
2. یہ حکم ہر جگہ کے لیے یکساں ہے‘ خواہ مسجد میں ہو یا مجلس احباب میں یا کہیں دوسرے مقام پر۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1240   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4828  
´ایک شخص دوسرے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے تو یہ کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو ایک شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ وہاں بیٹھنے چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4828]
فوائد ومسائل:
1) یہ ممانعت بھی احتیاط کے طور پر ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی جگہ پر نہ بیٹھیں۔
ورنہ اگر کو ئی شخص احتراماَ کسی دوسرے کو اپنی جگہ بیٹھنے کی پیشکش کرتا ہے تو دیگر دلائل کی رُو سے اسکا جواز ہے۔

2) یہ رویت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک ضعیف ہے، تاہم معنوی طور پر صحیح ہے جیسا کہ خود اُنھوں نے اپنی تحقیق میں بخاری و مسلم کی روایات کا حوالہ درج کرنے کے بعد یغني عنه یعنی بخاری اور مسلم کی روایات کفایت کرتی ہیں کہا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نے بھی اسے حسن کہا ہے، تفصیل کے لیئے دیکھئے:(الصحٰحة، حديث: ٢٢٨)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4828   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6269  
6269. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کے بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود وہاں بیٹھ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6269]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھانے کی ممانعت بیان ہوئی ہے۔
اگر وہ دوبارہ آنے کی نیت سے خود اٹھ کر چلا جاتا ہے تو بھی کسی دوسرے کو وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جو شخص اپنی جگہ سے اٹھ کر جائے اور پھر واپس لوٹ آئے تو وہی اس جگہ کا زیادہ حق دار ہے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4853)
لیکن جانے والے کو چاہیے کہ جگہ پر کوئی علامت کپڑا وغیرہ چھوڑ جائے تاکہ دوسروں کو معلوم ہو جائے وہ واپس آنا چاہتا ہے بصورت دیگر اس کی جگہ پر کوئی دوسرا بیٹھ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6269