صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
38. بَابُ مَنْ أُلْقِيَ لَهُ وِسَادَةٌ:
باب: کسی کے لیے گاؤ تکیہ لگانا یا گدا بچھانا (جائز ہے)۔
حدیث نمبر: 6278
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، أَنَّهُ قَدِمَ الشَّأْمَ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ذَهَبَ عَلْقَمَةُ إِلَى الشَّأْمِ فَأَتَى الْمَسْجِدَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي جَلِيسًا، فَقَعَدَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالَ:" أَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي كَانَ لَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ: يَعْنِي حُذَيْفَةَ، أَلَيْسَ فِيكُمْ أَوْ كَانَ فِيكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشَّيْطَانِ: يَعْنِي عَمَّارًا، أَوَلَيْسَ فِيكُمْ صَاحِبُ السِّوَاكِ وَالْوِسَادِ: يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ، كَيْفَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1، قَالَ: 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0، فَقَالَ: مَا زَالَ هَؤُلَاءِ حَتَّى كَادُوا يُشَكِّكُونِي، وَقَدْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے کہ آپ ملک شام میں پہنچے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اور مجھ سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے اور ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ علقمہ ملک شام گئے اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھی پھر یہ دعا کی اے اللہ! مجھے ایک ہم نشین عطا فرما۔ چنانچہ وہ ابودرداء رضی اللہ عنہ کی مجلس میں جا بیٹھے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا۔ تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ کہا کہ اہل کوفہ سے، پوچھا کیا تمہارے یہاں (نفاق اور منافقین کے) بھیدوں کے جاننے والے وہ صحابی نہیں ہیں جن کے سوا کوئی اور ان سے واقف نہیں ہے؟ ان کا اشارہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں وہ نہیں ہیں (یا یوں کہا کہ) تمہارے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی شیطان سے پناہ دی تھی؟ اشارہ عمار رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ کیا تمہارے یہاں مسواک اور گدے والے نہیں ہیں؟ ان کا اشارہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف تھا۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سورۃ «والليل إذا يغشى‏» کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ «والذكر والأنثى‏» پڑھتے تھے۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ یہ لوگ کوفہ والے اپنے مسلسل عمل سے قریب تھا کہ مجھے شبہ میں ڈال دیتے حالانکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود اسے سنا تھا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2939  
´سورۃ اللیل میں «واللیل إذا یغشی والذکر والأنثی» کی قرأت کا بیان۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ ہم شام پہنچے تو ابوالدرواء رضی الله عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا: کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود کی قرأت کی طرح پر قرأت کرتا ہو؟ تو لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، میں نے کہا: ہاں، انہوں نے کہا: تم نے یہ آیت «والليل إذا يغشى» عبداللہ بن مسعود کو کیسے پڑھتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے کہا: میں نے انہیں «والليل إذا يغشى والذكر والأنثى» ۱؎ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ ابو الدرداء نے کہا: اور میں، قسم اللہ کی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی پڑھتے ہوئے سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2939]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشہورقراء ت ہے ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى،
وَمَا خَلَقَ الذَّكَرِ وَالأُنْثَى﴾
حدیث میں مذکور قراء ت اس میں مذکوراشخاص ہی کی ہے،
ان کے علاوہ اور کسی بھی قاری سے یہ منقول نہیں ہے،
عثمان رضی اللہ عنہ کے قراء ت شاید اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر پہنچی ہو جو ان مذکورہ اشخاص تک نہیں پہنچی ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2939   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6278  
6278. مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے مغیرہ بن مقسم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے کہ آپ ملک شام میں پہنچے (دوسری سند) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6278]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکیہ لگانے یا گدا بچھانے کا ذکر ہے، لہٰذا اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
شارح مہلب نے کہا ہے کہ اس حدیث سے بڑے شخص کا احترام ثابت ہوتا ہے، نیز بڑا آدمی اپنے شاگرد کے گھر جا کر اسے دینی تعلیم دے سکتا ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر صاحب خانہ برا محسوس نہ کرے تو اس کے اکرام واحترام کو نظر انداز کر کے مہمان تواضع اختیار کرسکتا ہے۔
(فتح الباري: 82/11)
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے تینوں بزرگوں، یعنی حضرت حذیفہ، حضرت عمار اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے مختلف ایسے فضائل ومناقب بیان کیے ہیں جو ان کے ساتھ مخصوص تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6278