صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
42. بَابُ الْجُلُوسِ كَيْفَمَا تَيَسَّرَ:
باب: آسانی کے ساتھ آدمی جس طرح بیٹھ سکے بیٹھ سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 6284
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لِبْسَتَيْنِ، وَعَنْ بَيْعَتَيْنِ: اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَالِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ لَيْسَ عَلَى فَرْجِ الْإِنْسَانِ مِنْهُ شَيْءٌ، وَالْمُلَامَسَةِ، وَالْمُنَابَذَةِ"، تَابَعَهُ مَعْمَرٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُدَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یزید لیثی نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے اور دو طرح کی خرید و فروخت سے منع فرمایا تھا۔ اشتمال صماء اور ایک کپڑے میں اس طرح احتباء کرنے سے کہ انسان کی شرمگاہ پر کوئی چیز نہ ہو اور ملامست اور منابذت سے۔ اس روایت کی متابعت معمر، محمد بن ابی حفصہ اور عبداللہ بن بدیل نے زہری سے کی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3559  
´ممنوع لباس کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے، ایک «اشتمال صماء» ۱؎ سے، دوسرے ایک کپڑے میں «احتباء» ۲؎ سے کہ اس کی شرمگاہ پر کچھ نہ ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3559]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لباس کا مقصد جسم کو اور خاص طور پر پردے کے اعضاء (شرم گاہ)
کو چھپانا ہے۔
اگر چادر یا تہبند اس انداز سے استعمال کیا جئے کہ یہ مقصد حاصل نہ ہو تو یہ ممنوع ہے کیونکہ ایسا لباس حیا کے منافی ہے۔

(2)
کپڑے میں لپٹ جانے کو (اشتمال الصماء)
کہتے ہیں۔
صماء کے معنی ٹھوس چیز کے ہیں یعنی اس طرح چادر اوڑھ کر انسان آسانی سے حرکت کرنے سے محروم ہو جاتا ہے جس طرح ٹھوس پتھر حرکت نہیں کر سکتا۔

(3) (احتباء)
کا مطلب ہے گھٹنے کھڑے کر کے اس طرح بیٹھنا کہ ایک کپڑے کے ساتھ کمر اور گھٹنوں کو باندھ لیا جائے۔
اگر تہبند کو اس طرح باندھ کر بیٹھا جائے تو پردے کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
اگر تہبند کے علاوہ دوسرے کپڑے کو اس طرح لے کر بیٹھا جائےتو جائز ہے کیونکہ اس سے بے پردگی کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
یہ ایک کپڑے میں احتباء نہیں۔

(4)
بعض اوقات گھٹنے کھڑے کر کے بازو ان کے سامنے لا کر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو پکڑ لیا جاتا ہے۔
اس طرح بیٹھنا جائز ہے کیونکہ اس طرح بیٹھنے سے بے پردگی نہیں ہوتی لیکن خطبے کے دوران میں اس طرح بیٹھنے سے روکا گیا ہے کیونکہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3559   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2417  
´عیدین (عیدالفطر اور عید الاضحی) کے دن روزہ کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں کے روزوں سے منع فرمایا: ایک عید الفطر کے دوسرے عید الاضحی کے، اسی طرح دو لباسوں سے منع فرمایا ایک صمّاء ۱؎ دوسرے ایک کپڑے میں احتباء ۲؎ کرنے سے (جس سے ستر کھلنے کا اندیشہ رہتا ہے) نیز دو وقتوں میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا: ایک فجر کے بعد، دوسرے عصر کے بعد۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2417]
فوائد ومسائل:
(1) عید کے دنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے۔

(2) نماز فجر اور عصر کے بعد نوافل پڑھنا ناجائز ہے، لیکن کوئی قضا نماز پڑھنی ہو یا کوئی سببی نماز ہو تو بعض کے نزدیک مباح ہے بشرطیکہ سورج نکلنے یا غروب ہونے والا نہ ہو۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2417   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6284  
6284. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دو قسم کے ملبوسات اور دو طرح کی خرید فروخت سے منع فرمایا تھا: اشتمال صماء (بولی بکل) اور ایک ہی کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا جبکہ آدمی کی شرمگاہ پر کوئی چیز نہ ہو۔ اور دو قسم کی خرید وفروخت یہ ہے کہ محض کوئی چیز پھینکنے یا اسے ہاتھ سے چھونے سے بیع پختہ ہو جائے اس سے بھی آپ نے منع فرمایا ہے حضرت معمر محمد بن ابی حفص اور عبداللہ بن بدیل نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6284]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیٹھنے سے منع فرمایا کہ اس میں ستر عورت کھلنے کا ڈر ہو تو اس سے یہ نکلا کہ یہ ڈر نہ ہو تو اسطرح بیٹھنا بھی جائز درست ہے۔
امام مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک چار زانوں بیٹھے رہا کرتے تھے۔
معمر کی روایت کو امام بخاری نےکتاب البیوع میں اور محمد بن ابی حفصہ کی روایت کو ابن عدی نے اور عبد اللہ بن بدیل کی روایت کو ذہلی نے زہریات میں وصل کیا ہے۔
ملامسۃ کے بارے میں علامہ نووی نے شرح مسلم میں علماء سے تین صورتیں نقل کی ہیں ایک یہ کہ بیچنے والا ایک کپڑا لپٹا ہوا یا اندھیرے میں لے کر آئے اور خریدار اس کو چھوئے تو بیچنے والا یہ کہے کہ میں نے یہ کپڑا تیرے ہاتھ بیچا اس شرط سے کہ تیرا چھونا تیرے دیکھنے کے قائم مقام ہے اور جب تو دیکھے تو تجھے اختیار نہیں ہے۔
دوسری صورت یہ کہ چھونا خود بيع قرار دیا جائے مثلا مالک خریدار سے یہ کہے کہ جب تو چھوئے تووہ مال تیرے ہاتھ بک گیا۔
تيسری صورت یہ کہ چھونے سے مجلس کا اختیار قطع کیا جائے اور تینوں صورتوں میں بیع باطل ہے۔
اسی طرح بیع منابذہ کے بھی تین معنی ہیں۔
ایک تو یہ کہ کپڑے کا پھینکنا بیع قرار دیا جائے یہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر ہے۔
دوسری یہ کہ پھینکنے سے اختیار قطع کیا جائے، تیسری یہ کہ پھینکنے سے کنکری کا پھینکنا مراد ہے۔
یعنی خرید نے والا بائع کے حکم سے کسی مال پر کنکری پھینک دے تو وہ کنکری جس چیز پر پڑ جائے گی اس کا لینا ضروری ہو جائے گا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ۔
یہ سب جاہلیت کے زمانے کی بیع ہیں جو جوئے میں داخل ہیں، اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرمایا ہے اور روایت ہذا میں دو قسم کے لباسوں سے منع فرمایا گیا ہے۔
ایک اشتمال صماء ہے جس کی یہ صورت جو بیان کی گئی ہے دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی ایک کپڑے کو اپنے جسم پر اس طرح سے لپیٹ لے کہ کسی طرف سے کھلا نہ رہے گویا اس کو اس پتھر سے مشابہت دی جس کو صخرہ صماء کہتے ہیں یعنی وہ پتھر جس میں کوئی سوراخ یا شگاف نہ ہو سب طرف سے سخت اور یکساں ہو۔
بعض نے کہا کہ اشتمال صماء یہ ہے کہ آدمی کسی بھی کپڑے سے اپنا سارا جسم ڈھانپ کر کسی ایک جانب سے کپڑے کو اٹھا دے تو اس کا ستر کھل جائے۔
غرض یہ دونوں قسمیں ناجائز ہیں اور دوسرا لباس احتباء یہ ہے کہ جس سے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب شرمگاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو تو ایک ہی کپڑا سے گوٹ مار کر بیٹھے جس کی صورت یہ ہے کہ ایک کپڑے سے یا ہاتھوں سے اپنے پاؤں اور پیٹ کو ملا کر پیٹھ یعنی کمر سے جکڑے تو اگر شرمگاہ پر کپڑا ہے اور شرمگاہ ظاہر نہیں ہوتی ہے تو جائز ہے اور اگر شرمگاہ ظاہر ہو جاتی ہے تو ناجائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6284   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6284  
6284. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے دو قسم کے ملبوسات اور دو طرح کی خرید فروخت سے منع فرمایا تھا: اشتمال صماء (بولی بکل) اور ایک ہی کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا جبکہ آدمی کی شرمگاہ پر کوئی چیز نہ ہو۔ اور دو قسم کی خرید وفروخت یہ ہے کہ محض کوئی چیز پھینکنے یا اسے ہاتھ سے چھونے سے بیع پختہ ہو جائے اس سے بھی آپ نے منع فرمایا ہے حضرت معمر محمد بن ابی حفص اور عبداللہ بن بدیل نے زہری سے روایت کرنے میں سفیان کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6284]
حدیث حاشیہ:
(1)
اشتمال صماء یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر اس طرح کپڑا اوڑھ لے کہ ہاتھ بالکل بند ہو جائیں۔
ایسے حالات میں انسان معمولی سی ٹھوکر لگنے سے گرپڑتا ہے۔
اسے پتھر سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں کسی طرف سے کوئی سوراخ یا شگاف نہیں ہوتا۔
اس احتباء کی یہ صورت ہے کہ انسان اس طرح گوٹھ مار کر بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ ننگی ہو، اگر ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ان ممنوع صورتوں کے علاوہ انسان جس طرح چاہے بیٹھ سکتا ہے۔
اس پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ بیٹھتے وقت فلاں قسم کا انداز اختیار کرے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6284