صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
47. بَابُ إِذَا كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثَةٍ فَلاَ بَأْسَ بِالْمُسَارَّةِ وَالْمُنَاجَاةِ:
باب: جب تین سے زیادہ آدمی ہوں تو کانا پھوسی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 6291
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قِسْمَةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي مَلَإٍ فَسَارَرْتُهُ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کچھ مال تقسیم فرمایا اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہ تھی میں نے کہا کہ ہاں! اللہ کی قسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤں گا۔ چنانچہ میں گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں چپکے سے یہ بات کہی تو آپ غصہ ہو گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا پھر آپ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا (پس میں بھی صبر کروں گا)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6291  
6291. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ کچھ مال تقسیم فرمایا: اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا: یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا مقصود نہیں۔ میں نے(دل میں کہا) اللہ کی قسم! میں نبی ﷺ کی خدمت میں جاؤں گا، چنانچہ میں حاضر خدمت ہو تو اس وقت آپ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے چپکے سے آپ کے کان میں بات کی، آپ غصے سے بھر گئے حتیٰ کہ آپ کا چہرہ انور سرخ ہوگیا پھر آپ نے فرمایا: موسیٰ ؑ پر اللہ کی رحمت انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی مگر انہوں نے صبر سے کام لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6291]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طرزعمل سے نکلا کیونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی جب دوسرے کئی لوگ موجو د تھے۔
یہ گستاخ منافق تھا جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت تکلیفیں دی گئیں قارون نے ایک فاحشہ عورت کو بھڑکا کر آ پ پر زنا کی تہمت لگائی، بنی اسرائیل نے آپ کو فتق کا عارضہ بتلایا کسی نے کہا کہ آپ نے اپنے بھائی ہارون کو مارڈالا۔
ان الزامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا اللہ ان پر بہت بہت سلام پیش فرمائے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6291   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6291  
6291. حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ کچھ مال تقسیم فرمایا: اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا: یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا مقصود نہیں۔ میں نے(دل میں کہا) اللہ کی قسم! میں نبی ﷺ کی خدمت میں جاؤں گا، چنانچہ میں حاضر خدمت ہو تو اس وقت آپ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے چپکے سے آپ کے کان میں بات کی، آپ غصے سے بھر گئے حتیٰ کہ آپ کا چہرہ انور سرخ ہوگیا پھر آپ نے فرمایا: موسیٰ ؑ پر اللہ کی رحمت انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی مگر انہوں نے صبر سے کام لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6291]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے طرزِ عمل سے عنوان کو ثابت کیا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت سرگوشی کی جب دوسرے کئی لوگ موجود تھے۔
اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مجلس میں دو سے زیادہ لوگ ہوں تو انھیں اس قسم کی سرگوشی سے تکلیف نہیں ہوتی، ہاں اگر باقی ماندہ ایک شخص اجازت دے دے تو اس کی موجودگی میں بھی سرگوشی کرنا جائز ہوگا۔
(2)
اگر دو آدمی خفیہ بات کر رہے ہوں تو تیسرے کو گھس کر بات سننا بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ متعدد احادیث میں اس کی ممانعت مذکور ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6291