صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ -- کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
53. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْبِنَاءِ:
باب: عمارت بنانا کیسا ہے۔
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: إِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْبَهْمِ فِي الْبُنْيَانِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ مویشی چرانے والے لوگ کوٹھیوں میں اکڑنے لگیں گے یعنی بلند کوٹھیاں بنوا کر فخر کرنے لگیں گے۔
حدیث نمبر: 6302
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" رَأَيْتُنِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنَيْتُ بِيَدِي بَيْتًا يُكِنُّنِي مِنَ الْمَطَرِ، وَيُظِلُّنِي مِنَ الشَّمْسِ مَا أَعَانَنِي عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق نے بیان کیا وہ سعید کے بیٹے ہیں، ان سے سعید نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا تاکہ بارش سے حفاظت رہے اور دھوپ سے سایہ حاصل ہو اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ضرورت کے لائق گھر بنانا درست ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6302  
6302. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے خود کو نبی ﷺ کے ساتھ دیکھا کہ میں نے (آپ کے زمانہ مبارک میں) اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا جو مجھے بارش سے محفوظ رکھتا اور دھوپ میں سایہ فراہم کرتا تھا۔ اللہ کی مخلوق میں سے کسی نے اس کام میں میری مدد نہیں کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6302]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصود، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اپنی تنگدستی کا اظہار ہے کہ میں نے بقدر ضرورت اپنی کٹیا تعمیر کی تھی، اس کے بعد تباہ حال اور تنگ دست وفقیر، مال دار بن گئے اور ضرورت کے بغیر مکانات تعمیر کرنے میں دلچسپی لینے لگے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عمارت اپنے بنانے والے کے لیے وبال جان ہوگی مگرو وہ عمارت جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو۔
" (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5237) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جن احادیث میں تعمیرات کی مذمت بیان ہوئی ہے ان سے مراد ایسی عمارات ہیں جو بلا ضرورت، محض نمائش اور اظہار فخر کے لیے بنائی گئی ہوں لیکن جو عمارتیں رہائش اور گرمی سردی سے بچاؤ کے لیے ہیں وہ قطعاً مراد نہیں کیونکہ یہ انسانی ضرورت کے لیے ہوتی ہیں۔
(فتح الباري: 111/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6302