صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
2. بَابُ أَفْضَلِ الاِسْتِغْفَارِ:
باب: استغفار کے لیے افضل دعا کا بیان۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا {10} يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا {11} وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا {12} سورة نوح آية 10-12 وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ سورة آل عمران آية 135"
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نوح میں) فرمایا «استغفروا ربكم إنه كان غفارا * يرسل السماء عليكم مدرارا * ويمددكم بأموال وبنين ويجعل لكم جنات ويجعل لكم أنهارا‏» اپنے رب سے بخشش مانگو وہ بڑا بخشنے والا ہے تم ایسا کرو گے تو وہ آسمان کے دہانے کھول دے گا اور مال اور بیٹوں سے تم کو سرفراز کرے گا اور باغ عطا فرمائے گا اور نہریں عنایت کرے گا۔ اور (سورۃ آل عمران میں) فرمایا «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله فاستغفروا لذنوبهم ومن يغفر الذنوب إلا الله ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون‏» بہشت ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جن سے کوئی بےحیائی کا کام ہو جاتا ہے یا کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اللہ پاک کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخشے اور وہ اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر ہٹ دھرمی نہیں کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 6306
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ الْعَدَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَيِّدُ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، قَالَ: وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین بن ذکوان معلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ان سے بشیر بن کعب عدوی نے کہا کہ مجھ سے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سیدالاستغفار (مغفرت مانگنے کے سب کلمات کا سردار) یہ ہے یوں کہے «اللهم أنت ربي،‏‏‏‏ لا إله إلا أنت،‏‏‏‏ خلقتني وأنا عبدك،‏‏‏‏ وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت،‏‏‏‏ أعوذ بك من شر ما صنعت،‏‏‏‏ أبوء لك بنعمتك على وأبوء بذنبي،‏‏‏‏ اغفر لي،‏‏‏‏ فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت‏"‏‏.‏»اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں۔ ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن اس کا انتقال ہو گیا شام ہونے سے پہلے، تو وہ جنتی ہے اور جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات میں ان کو پڑھ لیا اور پھر اس کا صبح ہونے سے پہلے انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1347  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدالاستغفار یہ ہے کہ بندہ یوں کہے «اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت أبوء لك بنعمتك علي وأبوء بذنبي فاغفر لي فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اے اللہ! تو میرا مالک و مربی ہے۔ تیرے سوا اور کوئی الہٰ نہیں، تو نے مجھے پیدا فرمایا اور میں تیرا بندہ ہوں اور اپنی بساط بھر تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں۔ جس برائی کا میں ارتکاب کر چکا ہوں اس سے تیری پناہ پکڑتا ہوں۔ تیرے جو مجھ پر احسان ہیں ان کا میں اعتراف کرتا ہوں اور تیرے روبرو اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں۔ پس مجھے معاف فرما دے کہ تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا اور کوئی بھی نہیں ہے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1347»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب أفضل الا ستغفار...، حديث:6306.»
تشریح:
اس حدیث کا بقیہ ارشاد نبوی یہ ہے کہ جس کسی نے اس دعا کو دل میں یقین رکھتے ہوئے صبح کے وقت پڑھا اور شام سے پہلے وفات پا گیا تو وہ اہل جنت میں سے ہے اور جس کسی نے اسے رات کے وقت یقین رکھتے ہوئے پڑھا اور وہ صبح سے پہلے فوت ہوگیا تو وہ بھی اہل جنت میں سے ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1347   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3393  
´صبح و شام پڑھی جانے والی دعاؤں سے متعلق ایک اور باب۔`
شداد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا میں تمہیں «سيد الاستغفار» (طلب مغفرت کی دعاؤں میں سب سے اہم دعا) نہ بتاؤں؟ (وہ یہ ہے): «اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت وأبوء لك بنعمتك علي وأعترف بذنوبي فاغفر لي ذنوبي إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت» اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا، میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی استطاعت بھر تجھ سے کیے ہوئے وعدہ و اقرار پر قائم ہوں، اور میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3393]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! تو میرا رب ہے،
تیرے سوا میرا کوئی معبود برحق نہیں،
تو نے مجھے پیدا کیا،
میں تیرا بندہ ہوں،
میں اپنی استطاعت بھر تجھ سے کیے ہوئے وعدہ واقرار پر قائم ہوں،
اور میں تیری ذات کے ذریعہ اپنے کئے کے شر سے پناہ مانگتا ہوں تو نے مجھے جو نعمتیں دی ہیں،
ان کا اقرار اور اعتراف کرتا ہوں،
میں اپنے گناہوں کو تسلیم کرتا ہوں تو میرے گناہوں کو معاف کر دے،
کیوں کہ گناہ تو بس تو ہی معاف کر سکتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3393   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6306  
6306. حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سید الاستغفار یہ (وظیفہ) ہے کہ تو کہے: اے اللہ! تو میرا رب ہے۔ تیرا ہی بندہ ہوں۔ میں ان بری حرکتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو میں نے کی ہیں۔ جو تیری نعمتیں ہیں میں ان کا اقرار کرتا ہوں اور میں اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے۔ بلاشبہ تیرے سوا کوئی بھی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اس استغفار پر یقین رکھتے ہوئے دل کی گہرائی سے اسے پڑھا پھر شام ہونے سے پہلے اسی دن اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات کے وقت ان کو پڑھ لیا، پھر اس کا صبح ہونے سے پہلے انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6306]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے تحت ذکر کردہ آیات میں استغفار کی فضیلت بیان کی تھی، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے درج ذیل دعا پڑھی اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے، خواہ وہ جنگ کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو:
(أستغفرالله العظيم الذي لا اله الا هو الحي القيوم و اتوب اليه)
میں عظمت والے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
وہ زندہ جاوید اور قائم رہنے والا ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
(جامع الترمذي، الدعوات:
حدیث: 3577)
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بہترین استغفار کی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ قوم کے سردار کو سید کہتے ہیں اور وہ سب سے افضل ہوتا ہے، اسی طرح استغفار کی تمام دعاؤں سے یہ دعائے استغفار افضل ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی شان بے نیازی اور انسان کی عاجزی اور درماندگی کا بیان ہے، پھر اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات کا بیان ہے جو اس کے بلند شان ہونے کی علامت ہیں۔
(فتح الباري: 121/11) (3)
واضح رہے کہ استغفار کی تین شرطیں ہیں:
٭ نیت کی درستی۔
٭ خالص توجہ۔
٭ آدابِ دعا کی پابندی۔
مذکورہ دعا کو اسی وقت سید الاستغفار کا درجہ حاصل ہوگا جب مذکورہ شرطیں پائی جائیں گی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6306