صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
40. بَابُ الاِسْتِعَاذَةِ مِنَ الْجُبْنِ وَالْكَسَلِ:
باب: بزدلی اور سستی سے اللہ کی پناہ مانگنا۔
حدیث نمبر: 6369
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا سليمان، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن،‏‏‏‏ والعجز والكسل،‏‏‏‏ والجبن والبخل،‏‏‏‏ وضلع الدين،‏‏‏‏ وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و الم سے، عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل، قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3484  
´بعض چیزوں سے پناہ طلب کرنے کا باب۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر و بیشتر ان الفاظ سے دعا مانگتے سنتا تھا: «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکرو غم سے، عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر و ظلم و زیادتی سے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر وغم سے،
عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر وظلم وزیادتی سے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1540  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من العجز، والكسل، والجبن، والبخل، والهرم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل اور کنجوسی سے اور انتہائی بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1540]
1540. اردو حاشیہ: دین و دنیا کی بھلائیوں کے حصول میں محرومی تین اسباب سے ہوتی ہے کہ انسان میں ان کے کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ‘یاسستی غالب آ جاتی ہے ‘ یا جرات کا فقدان ہوتا ہے۔ «بخل» ‏‏‏‏ سےمراد وہ کیفیت ہے کہ جہاں خرچ کرنا مشروع و مستحب ہو ‘ لیکن انسان وہاں خرچ نہ کرے۔ «ھرم» ‏‏‏‏ بڑی عمر ہونے کی یہ حالت کہ انسان دوسروں پر بوجھ بن جائے۔نہ عبادت کر سکے اور نہ دنیا کا کام۔زندگی کے فتنے یہ کہ آزمائشیں اورپریشانیاں غالب آ جائیں ‘ نیکی کا کاموں سے محروم رہے۔موت کا فتنہ یہ کہ انسان اعمال خیر سے محروم رہ جائے یا مرتے دم کلمہ توحید نصیب نہ ہو۔ اور قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے اس میں بندہ اگر پھسل یا پھنس گیا تو بہت بڑی ہلاکت ہے اور عذاب قبر سے تعوذ ‘امت کے لیے تعلیم ہے ورنہ انبیائے کرام علیہم السلام اس سے محفوظ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1540   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6369  
6369. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ! میں غم والم، عاجزی و کاہلی، بزدلی نیز قرضے کے بوجھ اور لوگوں کے غلبے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6369]
حدیث حاشیہ:
(1)
بزدلی اور سستی کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ سستی سے بزدلی جنم لیتی ہے، جبکہ سستی کا تعلق جسم سے ہے اور بزدلی دل سے تعلق رکھتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی سے پناہ مانگتے تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کو ایسی دعائیں سکھانے کا بہت اہتمام کرتے تھے جن میں بزدلی اور سستی سے پناہ کا ذکر ہوتا۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2822) (2)
بزدلی کی ضد شجاعت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر تھے جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2820)
بلکہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا تھا:
تم مجھے کسی وقت بھی بخیل، جھوٹا یا بزدل نہیں پاؤ گے۔
(صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3148)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6369