صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
18. بَابُ الأَذَانِ لِلْمُسَافِرِ إِذَا كَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَكَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمْعٍ:
باب: اگر کئی مسافر ہوں تو نماز کے لیے اذان دیں اور تکبیر بھی کہیں اور عرفات اور مزدلفہ میں بھی ایسا ہی کریں۔
وَقَوْلِ الْمُؤَذِّنِ الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ. فِي اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ أَوِ الْمَطِيرَةِ.
‏‏‏‏ اور جب سردی یا بارش کی رات ہو تو مؤذن یوں پکار دے کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔
حدیث نمبر: 629
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْمُهَاجِرِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ، حَتَّى سَاوَى الظِّلُّ التُّلُولَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے مہاجر ابوالحسن سے بیان کیا، انہوں نے زید بن وہب سے، انہوں نے ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دے۔ پھر مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 629  
629. حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم کسی سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، مؤذن نے (ظہر کی) اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔ اس نے پھر اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے پھر فرمایا: ذرا اور ٹھنڈا ہو جانے دو۔ اس نے تیسری مرتبہ اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: ذرا مزید ٹھنڈا ہونے دو۔ یہاں تک کہ جب سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: گرمی کی شدت، جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:629]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان مسافروں کی جب ایک جماعت موجود ہو تو وہ بھی اذان، تکبیر اور جماعت اسی طرح کریں جس طرح حالت اقامت میں کیا کرتے ہیں۔
یہ بھی ثابت ہوا کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھنا مناسب ہے۔
تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہوجائے جو دوزخ کے سانس لینے سے پیدا ہوتی ہے۔
جیسی دوزخ ہے ویسا ہی اس کا سانس بھی ہے۔
جس کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مزید کدوکاوش کی ضرورت نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 629   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:629  
629. حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم کسی سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھے، مؤذن نے (ظہر کی) اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: ذرا ٹھنڈا ہو جانے دو۔ اس نے پھر اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے پھر فرمایا: ذرا اور ٹھنڈا ہو جانے دو۔ اس نے تیسری مرتبہ اذان کہنے کا ارادہ کیا تو آپ نے اس سے فرمایا: ذرا مزید ٹھنڈا ہونے دو۔ یہاں تک کہ جب سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: گرمی کی شدت، جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:629]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر میں اذان اس وقت کہی جائے جب کسی لشکر یا قافلے کا امیر موجود ہو اس کے علاوہ صرف اقامت کہنے کا حکم ہے۔
امام مالک کا بھی یہی موقف ہے کہ جماعت میں اگر امیر ہو تو اذان کہی جائے بصورت دیگر نہیں۔
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ اذان ایک مستقل چیز ہے، وہ امیر پر موقوف نہیں، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤذن نے دوران سفر میں بار بار اذان کہنے کا ارادہ کیا، بالآخر جب گرمی کی شدت کم ہوئی تو ظہر کے لیے اذان دی گئی، پھر اقامت کے ساتھ نماز باجماعت ادا کی گئی۔
اس عنوان کا یہ مقصد نہیں کہ دوران سفر میں اکیلا آدمی اذان اور اقامت نہیں کہہ سکتا، کیونکہ قبل ازیں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ایک حدیث (609)
گزرچکی ہے کہ اکیلا آدمی بھی بآواز بلند اذان دے۔
اذان کے بےشمار مصالح اور متعدد فوائد ہیں، ان میں ایک مشروعیت اجتماع بھی ہے، اس لیے اگر جماعت نہیں تو بھی اذان کہنا مشروع ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے میدان عرفات اور مزدلفہ میں بھی اذان اور اقامت کا ذکر کیا ہے، حالانکہ حج بیت اللہ امیر پر موقوف نہیں۔
اس سے ثابت ہوا کہ دوران سفر میں اگر مسافر زیادہ ہوں تو انھیں اذان اور اقامت کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے، خواہ امیر ہویا نہ ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 629