صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
62. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُسْتَجَابُ لَنَا فِي الْيَهُودِ، وَلاَ يُسْتَجَابُ لَهُمْ فِينَا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ یہود کے حق میں ہماری (جوابی) دعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن ان کی کوئی بددعا ہمارے حق میں قبول نہیں ہوتی۔
حدیث نمبر: 6401
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الْيَهُودَ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، قَالَ:" وَعَلَيْكُمْ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، وَلَعَنَكُمُ اللَّهُ، وَغَضِبَ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَهْلًا يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِالرِّفْقِ وَإِيَّاكِ وَالْعُنْفَ، أَوِ الْفُحْشَ"، قَالَتْ: أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ:" أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ رَدَدْتُ عَلَيْهِمْ فَيُسْتَجَابُ لِي فِيهِمْ، وَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ فِيَّ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا «السام عليك‏.‏» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا «وعليكم‏"‏‏.‏» لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا «السام عليكم،‏‏‏‏ ولعنكم الله وغضب عليكم‏.‏» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر، عائشہ! نرم خوئی اختیار کر اور سختی اور بدکلامی سے ہمیشہ پرہیز کر۔ انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ یہودی کیا کہہ رہے تھے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا، میں نے ان کی بات انہیں پر لوٹا دی اور میری ان کے بدلے میں دعا قبول کی گئی اور ان کی میرے بارے میں قبول نہیں کی گئی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3689  
´نرمی اور ملائمیت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ نرمی کرنے والا ہے اور سارے کاموں میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3689]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
دعوت و تبلیغ میں نرمی کا انداز نہایت مفید ہے، تاہم درست موقف میں نرمی پیدا کر لینا باطل کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔
جن معاملات میں شریعت میں آسانی ہے ان میں خواہ مخواہ سخت پہلو اختیار کرنا بھی غلط ہے اور اس پر اصرار کرنا مزید غلطی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3689   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2701  
´ذمیوں سے سلام کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: «السّام عليك» تم پر موت و ہلاکت آئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: «عليكم» ۱؎، عائشہ نے (اس پر دو لفظ بڑھا کر) کہا «بل عليكم السام واللعنة» بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو۔‏‏‏‏ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق، نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتا ہے، عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: کیا آپ نے سنا نہیں؟ انہوں نے کیا کہا ہے؟۔ آپ نے فرمایا: تبھی تو میں نے «عليكم» کہا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2701]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
گویا آپﷺ نے  «عليكم»  کہہ کر یہود کی بد دعا خود انہیں پر لوٹا دی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2701   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2478  
´ہجرت کا ذکر اور صحراء و بیابان میں رہائش کا بیان۔`
شریح کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحراء و بیابان (میں زندگی گزارنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان ٹیلوں پر جایا کرتے تھے، آپ نے ایک بار صحراء میں جانے کا ارادہ کیا تو میرے پاس صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بھیجا جس پر سواری نہیں ہوئی تھی، اور مجھ سے فرمایا: عائشہ! اس کے ساتھ نرمی کرنا کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے وہ اسے عمدہ اور خوبصورت بنا دیتی ہے، اور جس چیز سے بھی نرمی چھین لی جائے تو وہ اسے عیب دار کر دیتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2478]
فوائد ومسائل:

اس روایت کا پہلا حصہ (ھذہ التلاع) صحیح ثابت نہیں۔
(علامہ البانی) تاہم تدبر فی الانفس کی نیت سے آدمی کس وقت عزلت وتنہائی اختیار کرلے تو مفید ہے۔
جس کی صورت اعتکاف ہے۔
نہ کہ صوفیاء کی سیاحت۔


جب حیوانات سے نرم خوئی ممدوح اور مطلوب ہے۔
تو انسانوں سے یہ معاملہ اور بھی زیادہ باعث اجر وثواب ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2478   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6401  
6401. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ کچھ یہودی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: السام علیك آپ ﷺ نے جواب دیا: ''وعلیکم'' لیکن سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے جواب دیا: تم پر ہلاکت اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ!رک جاؤ، نرم خوئی اختیار کرو، سختی اور بد کلامی سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کی: آپ نے نہیں سنا وہ کیا کہہ رہے تھے؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا کہ میں انہیں کیا جواب دیا تھا؟ میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی تھی۔ میرا جواب تو ان کے متعلق شرف قبولیت سے نوازا جائے گا لیکن ان کی بد دعا میرے متعلق قبول نہیں ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6401]
حدیث حاشیہ:
پھر ان کے کوسنے کاٹنے سے کیا ہوتا ہے جیسا کی آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
آج کے غاصب یہودیوں کا بھی جو فلسطین پر قبضہ غاصبانہ کئے ہوئے ہیں، یہی انجام ہونے والا ہے (إن شاء اللہ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6401   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6401  
6401. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ کچھ یہودی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: السام علیك آپ ﷺ نے جواب دیا: ''وعلیکم'' لیکن سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے جواب دیا: تم پر ہلاکت اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ!رک جاؤ، نرم خوئی اختیار کرو، سختی اور بد کلامی سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کی: آپ نے نہیں سنا وہ کیا کہہ رہے تھے؟ آپ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا کہ میں انہیں کیا جواب دیا تھا؟ میں نے ان کی بات ان پر لوٹا دی تھی۔ میرا جواب تو ان کے متعلق شرف قبولیت سے نوازا جائے گا لیکن ان کی بد دعا میرے متعلق قبول نہیں ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6401]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں اس کی کچھ تفصیل ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے آپ کو ''السام عليك'' کہا۔
آپ نے اس کا جواب ''وعليكم'' کہہ کر دیا، اس طرح دوسرا اور تیسرا آیا، ہر ایک نے یہی کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا۔
میں نے غصے میں آ کر کہا:
بندروں اور خنزیروں کی اولاد! تم پر ہلاکت، اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''اللہ تعالیٰ فحش اور بدکلامی کو پسند نہیں کرتا۔
انہوں نے ایک بات کہی میں نے وہ ان پر واپس کر دی اور یہ حقیقت ہے کہ ہمیں ان کی بات سے کچھ نہیں ہو گا لیکن ہمارا جواب ان کے ساتھ قیامت تک کے لیے چمٹ جائے گا۔
'' (مسند أحمد: 135/6) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر اگر کوئی ظالم کسی پر بددعا کرتا ہے تو وہ قبول نہیں ہو گی۔
اس کی تائید ارشاد باری تعالیٰ سے بھی ہوتی ہے:
کافروں کی دعا و پکار تو رائیگاں ہی جاتی ہے۔
(الرعد: 13/14، و فتح الباري: 239/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6401