صحيح البخاري
كِتَاب الدَّعَوَاتِ -- کتاب: دعاؤں کے بیان میں
66. بَابُ فَضْلِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ:
باب: اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 6407
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6407  
6407. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور وہ جو ذکر نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6407]
حدیث حاشیہ:
اللہ کی یاد گویا نمود زندگی ہے اور اللہ کو بھول جانا گویا ظلمت موت ہے۔
بعض نے کہا اللہ کو یاد نہ کرنے والوں سے کچھ نفع نقصان نہیں پہنچتا۔
قرآن مجید میں اللہ کا ذکر کرنے سے متعلق بہت سی آیات ہیں ایک جگہ فرمایا۔
﴿یاایھا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذکرا کثیرا﴾ (الأحزاب: 41)
اے ایمان والو! اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو۔
ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو فرمایا تھا کہ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔
کسی حال میں بھی اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا یہ اللہ والوں کی شان ہے۔
نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، کلام، ذکر، اذکار سب کا خلاصہ یہی ذکر اللہ ہے جس کے کلمات تسبیح وتحمید وتکبیر وتہلیل بہترین ذرائع ہیں۔
تلاوت قرآن مجید ومطالعہ حدیث نبوی وکثرت درود شریف بھی سب ذکراللہ ہی کی صورتیں ہیں۔
سب سے بڑا ذکر یہ ہے کہ جملہ اوامر اور نواہی کے لئے اللہ کو یاد رکھے۔
اوامر کو بجا لائے نواہی سے پرہیز کر لے۔
ذاکرین کی مجلس کا یہ درجہ ہے کہ ذکراللہ کرنے والوں کے علاوہ آنے والا شخص گو ان میں شریک نہ ہو، کسی کام یا مطلب سے ان کے پاس آکر بیٹھ گیا ہو، تو ان کے ذکر کی برکت سے وہ بھی بخش دیا گیا۔
اس حدیث سے اہل اللہ اور ذاکرین اللہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی گو کسی ضرورت سے گیا ہو ان کے فیض اور برکت سے محروم نہیں رہتا۔
اب افسوس ہے ان لوگوں پر جو پیغمبر رحمت کے ساتھ بیٹھنے والوں اور سفر وحضر میں آپ کے ساتھ رہنے والے صحابہ کرام کو بہشت سے محروم اور بدنصیب جانتے ہیں۔
یہ کم بخت خود ہی محروم ہوں گے۔
ایک بار کعب اسلمی خادم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ نے فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے؟ انہوں نے کہا جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں۔
آپ نے فرمایا اور کچھ؟ انہوں نے کہا بس یہی۔
آپ نے فرمایا اچھا کثرت سجود سے میری مدد کر۔
(صحیح مسلم، کتاب الصلٰوة، باب کثرة السجود)
اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو یہ درجہ رفاقت عطا کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6407   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6407  
6407. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور وہ جو ذکر نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6407]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا گویا نمود زندگی ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھول جانا گویا ظلم و موت ہے۔
اللہ تعالیٰ کو یاد نہ کرنے والے مردوں کی طرح ہیں جو کسی کو نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے:
''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کو بکثرت یاد کیا کرو۔
'' (الأحزاب: 41) (2)
تلاوت قرآن، مطالعہ حدیث اور کثرت سے درودوسلام سب اللہ تعالیٰ کے ذکر کی مختلف صورتیں ہیں۔
سب سے بڑا ذکر یہ ہے کہ انسان جملہ اوامر و نواہی میں اللہ کو یاد رکھے۔
اوامر کو بجا لائے اور نواہی سے پرہیز کرے۔
حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کیا میں تمہیں تمہارے بہترین عمل کے متعلق آگاہ نہ کروں جو تمہارے مالک کے ہاں اجر کے اعتبار سے زیادہ بڑھنے والا، تمہارے درجات کی بلندی کا باعث بننے والا، تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بہتر اور تمہارے لیے دشمن سے ایسا جہاد کرنے سے اعلیٰ ہے جس میں تم ایک دوسرے کی گردنیں اڑاؤ؟۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:
کیوں نہیں؟ آپ ضرور آگاہ کریں۔
آپ نے فرمایا:
وہ اللہ کا ذکر ہے۔
(مسند أحمد: 195/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6407