صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
14. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا میرے پاس ہو تو بھی مجھ کو یہ پسند نہیں۔
حدیث نمبر: 6444
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرَّةِ الْمَدِينَةِ، فَاسْتَقْبَلَنَا أُحُدٌ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا يَسُرُّنِي أَنَّ عِنْدِي مِثْلَ أُحُدٍ هَذَا ذَهَبًا تَمْضِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، ثُمَّ مَشَى، فَقَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ، ثُمَّ قَالَ لِي: مَكَانَكَ لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ"، ثُمَّ انْطَلَقَ فِي سَوَادِ اللَّيْلِ حَتَّى تَوَارَى، فَسَمِعْتُ صَوْتًا قَدِ ارْتَفَعَ، فَتَخَوَّفْتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عَرَضَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرَدْتُ أَنْ آتِيَهُ، فَذَكَرْتُ قَوْلَهُ لِي: لَا تَبْرَحْ حَتَّى آتِيَكَ، فَلَمْ أَبْرَحْ حَتَّى أَتَانِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتًا تَخَوَّفْتُ فَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: وَهَلْ سَمِعْتَهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَانِي، فَقَالَ: مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِكَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، دَخَلَ الْجَنَّةَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَإِنْ زَنَى، وَإِنْ سَرَقَ".
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص (سلام بن سلیم) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے کہ ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے کہا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے پتھریلے علاقہ میں چل رہا تھا کہ احد پہاڑ ہمارے سامنے آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ابوذر! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہو گی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گذر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوا اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑ دوں بلکہ میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح خرچ کروں اپنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا، زیادہ مال جمع رکھنے والے ہی قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوا اس شخص کے جو اس مال کو اس اس طرح دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے خرچ کرے اور ایسے لوگ کم ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایا، یہیں ٹھہرے رہو، یہاں سے اس وقت تک نہ جانا جب تک میں آ نہ جاؤں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی تاریکی میں چلے گئے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ اس کے بعد میں نے آواز سنی جو بلند تھی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دشواری نہ پیش آ گئی ہو۔ میں نے آپ کی خدمت میں پہنچنے کا ارادہ کیا لیکن آپ کا ارشاد یاد آیا کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ چنانچہ جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہیں لائے میں وہاں سے نہیں ہٹا۔ پھر آپ آئے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے ایک آواز سنی تھی، مجھے ڈر لگا لیکن پھر آپ کا ارشاد یاد آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم نے سنا تھا؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ فرمایا کہ وہ جبرائیل علیہ السلام تھے اور انہوں نے کہا کہ آپ کی امت کا جو شخص اس حال میں مر جائے کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو جنت میں جائے گا۔ میں نے پوچھا خواہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو؟ انہوں نے کہا ہاں زنا اور چوری ہی کیوں نہ کی ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6444  
6444. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے علاقے میں چل رہا تھا کہ ہمارے سامنے اُحد پہاڑ نمودار ہوا۔ آپ نے فرمایا:اے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں نے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑوں، مگر میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کردوں۔ آپ نے دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: بے شک زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوائے اس شخص کے جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا۔۔۔ آپ نے دائیں، بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6444]
حدیث حاشیہ:
اہل سنت کا مذہب گنہگار مومن کے بارے میں جو بغیر توبہ کئے مر جائے یہی ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر ہے خواہ گناہ معاف کر کے اس کو بلا عذاب جنت میں داخل کرے یا چند روز عذاب کر کے اسے بخش دے لیکن مرجیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مومن ہو تو کوئی گناہ اس کو ضررنہ کرے گا اور معتزلہ کہتے ہیں کہ وہ بلا توبہ مر جائے تو ہمیشہ دوزخ میں رہے گا۔
یہ ہر دو قول غلط ہیں اور اہل سنت ہی کا مذہب صحیح ہے۔
مومن مسلمان کے لئے بہر حال بخشش مقدرہے۔
یا اللہ! اپنی بخشش سے ہم کو بھی سرفراز فرمائیو۔
(آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6444   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6444  
6444. حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے پتھریلے علاقے میں چل رہا تھا کہ ہمارے سامنے اُحد پہاڑ نمودار ہوا۔ آپ نے فرمایا:اے ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! میں نے عرض کی:اللہ کے رسول ﷺ! میں حاضر ہوں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس بات سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گزر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑوں، مگر میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کردوں۔ آپ نے دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر آپ کچھ دیر چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا: بے شک زیادہ مال رکھنے والے قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوائے اس شخص کے جس نے اس طرح، اس طرح اور اس طرح خرچ کیا۔۔۔ آپ نے دائیں، بائیں اور پیچھے کی طرف اشارہ فرمایا۔۔۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6444]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے دنیا میں فقر و تنگدستی کا انتخاب کیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قناعت، صبر اور توکل کا وافر سرمایہ دے کر ہوس زر سے فارغ کر دیا، اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر و فاقے کی جس حالت میں زندگی گزاری وہ اپنے لیے آپ نے خود ہی پسند کی تھی اور اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے اسے خود مانگا تھا۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6444