صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
14. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ اگر احد پہاڑ کے برابر سونا میرے پاس ہو تو بھی مجھ کو یہ پسند نہیں۔
حدیث نمبر: 6445
حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ يُونُسَ، وَقَالَ اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كَانَ لِي مِثْلُ أُحُدٍ ذَهَبًا، لَسَرَّنِي أَنْ لَا تَمُرَّ عَلَيَّ ثَلَاثُ لَيَالٍ وَعِنْدِي مِنْهُ شَيْءٌ، إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ".
مجھ سے احمد بن شبیب نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے اس میں خوشی ہو گی کہ تین دن بھی مجھ پر اس حال میں نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ بھی باقی بچے۔ البتہ اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4132  
´مالداروں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن آئے تو میرے پاس اس میں سے کچھ باقی رہے، سوائے اس کے جو میں قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4132]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس حدیث میں نبی ﷺ کی سخاوت کا بیان اور امت کے لیے ترغیب ہے۔

(2)
احد ایک بڑا پہاڑ ہےاتنا سونا دو تین دن میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا اس کے باوجود نبی ﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہو تو وہ بھی دو تین دن میں تقسیم نہیں کيا جاسکتا، اس کے باوجود نبیﷺ کی خواہش یہی تھی کہ اگر اتنا مال بھی ہوتو وہ بھی دو تین دن میں مکمل طور پر تقسیم کردیاجائے۔

(3)
قرض کی ادائیگی قرض خواہ کا حق ہےاس کی ادائیگی سخاوت سے اہم ہے۔

(4)
قرض لینا دینا جائز ہے لیکن قرض لیتے وقت یہ نیت ہونی چاہیےکہ جلد از جلد ادا کردیا جائے گا۔

(5)
سنبھال رکھنے کی ضرورت تب پیش آسکتی ہے جب ادائیگی کا مقرر وقت آنے میں کچھ وقفہ باقی ہو تاکہ جب قرض خواہ مطالبہ کرے تو ادئیگی کا اہتمام کرتے ہوئے ادائیگی میں تاخیر نہ ہوجائے۔

(6)
اگر قرض خواہ قریب موجود ہوتو مقررہ وقت سے پہلے خود جاکر ادائیگی کردینا افضل ہے لیکن اگر اس سے رابطہ مشکل ہوتو رقم سنبھال مناسب ہے۔
تاکہ ادائیگی جلد از جلد کی جاسکے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4132   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6445  
6445. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہ پسند ہے کہ تین راتیں بھی اس پر نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ باقی ہو، اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو الگ بات ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6445]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ ادائيگی قرض کے لئے سرمایہ جمع کرنا شرعاً معیوب نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6445   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6445  
6445. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہوتو مجھے یہ پسند ہے کہ تین راتیں بھی اس پر نہ گزرنے پائیں کہ اس میں سے میرے پاس کچھ باقی ہو، اگر کسی کا قرض دور کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو الگ بات ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6445]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کے مال و متاع سے کوئی دلچسپی نہ تھی، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔
اس پر کوئی بستر وغیرہ بھی نہیں تھا اور اس چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر نمایاں تھے اور آپ نے چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگا رکھی تھی۔
میں آپ کی اس حالت کو دیکھ کر رو پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رونے کی وجہ پوچھی۔
میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول! اہل فارس اور اہل روم کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر کشادگی دی ہے اور آپ تو اس کے رسول ہیں۔
آپ نے فرمایا:
کیا تم خوش نہیں کہ ان کے لیے دنیا میں ہوں اور ہمارے لیے آخرت میں۔
(صحیح البخاره، التفسیر، حدیث: 4913)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کی امت پر کشادگی فرمائے کیونکہ اہل فارس اور اہل روم پر تو اس کی بہت سی نوازشات ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا:
اے ابن خطاب! کیا تم ابھی تک اسی مقام پر ہو؟ یہ کفار وہ لوگ ہیں کہ انہیں ان کی لذتیں اس دنیا کی زندگی میں جلد عطا کر دی گئی ہیں۔
(صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2468) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُحد پہاڑ کے برابر سونا مل جائے تو اسے بھی اپنے پاس نہ رکھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیں، صرف اتنی دولت باقی رکھیں جس سے قرض کی ادائیگی ہو سکے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6445