صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
18. بَابُ الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ:
باب: نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا (نہ کمی ہو نہ زیادتی)۔
حدیث نمبر: 6462
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" كَانَ أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَدُومُ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پسندیدہ وہ عمل تھا جس کو آدمی ہمیشہ کرتا رہے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 657  
´پسندیدہ عمل`
«. . . 457- وبه: أنها قالت: كان أحب العمل إلى رسول الله الذى يدوم عليه صاحبه. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہوتا تھا جس پر عمل کرنے والا مداومت (ہمیشگی) کرے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 657]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6462، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ کوشش کر کے نیکی کے ہر کام میں ہمیشگی اور دوام اختیار کرنا چاہئے۔
➋ بعض اوقات کسی مباح و مستحب کام کو چھوڑ دینا بھی جائز ہے۔ دیکھئے: [الموطأ حديث: 424]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 457   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 43  
باب اور حدیث میں مناسبت:
➊حدیث میں جو الفاظ وارد ہوئے ہیں «الدين» کے اور دین سے مراد یہاں عمل کے ہیں کیوں کہ اعتقاد کو ترک کرنا کفر ہے اور دین اور ایمان ایک ہی چیز ہے تو ایمان بھی عمل ہوا اور عمل ہی مقصود ہے اس باب میں۔ [ديكهيے فتح الباري ج1 ص 136]
➋ دوسری مناسبت یہ ہے کہ بندہ مشقت سے جو عمل کرتا ہے اس پر دوام نہیں رکھ سکتا اور وہ جلد ہی اس عمل کو چھوڑ دیتا ہے اور جو مکمل نشاط اور توجہ سے عمل کرتا ہے تو اس پر وہ دوام اختیار کرتا ہے لہٰذا جو کام دل کی گہرائی اور دوام کے ساتھ ہو وہ یقیناً جنت کے حصول کا سبب بنتا ہے اور یقیناً جنت میں دین پر عمل کرنا ہی لے جاتا ہے یہاں سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 96   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 20  
´ایمان کا تعلق دل سے ہے`
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الْأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی (اس پر) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں (آپ تو معصوم ہیں) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 20]

تشریح:
اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی و زیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «انااعلمكم بالله» سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہو سکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرو مگر مجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی اللہ کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی و بیشی بھی ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 20   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6462  
6462. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے ہی روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جسے آدمی ہمیشہ کرتا رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6462]
حدیث حاشیہ:
نیک عمل کبھی کرنا کبھی چھوڑ دینا محمود نہیں جو بھی ہو اس پر مداومت ہونی محمود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6462   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 763  
´نمازی اور امام کے درمیان پردہ حائل ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی جسے آپ دن میں بچھایا کرتے تھے، اور رات میں اس کو حجرہ نما بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے، لوگوں کو اس کا علم ہوا تو آپ کے ساتھ وہ بھی نماز پڑھنے لگے، آپ کے اور ان کے درمیان وہی چٹائی حائل ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اتنا ہی) عمل کرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ثواب دینے سے نہیں تھکے گا البتہ تم (عمل سے) تھک جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو گرچہ وہ کم ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جگہ چھوڑ دی، اور وہاں دوبارہ نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی، آپ جب کوئی کام کرتے تو اسے جاری رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 763]
763 ۔ اردو حاشیہ:
➊ چٹائی کو کھڑا کر کے حجرہ سا بنانا لوگوں کی مداخلت روکنے اور خلوت مہیا کرنے کے لیے تھا کیونکہ خلوت خشوع و خضوع میں معاون ہے۔
➋ کوئی نیک کام شروع کر کے چھوڑ دینا زیادہ برا ہے بجائے اس کے کہ شروع ہی نہ کیا جائے کیونکہ چھوڑنے میں اعراض ہے، البتہ اگر کبھی کبھار نیند، سستی یا مصروفیت کی بنا پر وہ رہ جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اس کا ثواب لکھا جاتا ہے، بشرطیکہ مستقل نہ چھوڑے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 763   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4238  
´نیک کام کو ہمیشہ کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت (بیٹھی ہوئی) تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اور پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: یہ فلاں عورت ہے، یہ سوتی نہیں ہے (نماز پڑھتی رہتی ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو! تم پر اتنا ہی عمل واجب ہے جتنے کی تمہیں طاقت ہو، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ہے یہاں تک کہ تم خود ہی اکتا جاؤ۔‏‏‏‏ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ تھا جس کو آدمی ہمیشہ پابندی سے کرتا ہے۔‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4238]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
طاقت سے زیادہ عبادت کرنا منع ہے۔
کیونکہ ا س کے بعد میں اکتاہٹ ہوجاتی ہے۔
اور خطرہ ہوتا ہے کہ انسان عبادت بالکل ہی ترک کردے۔

(2)
ہمیشگی والے عمل کا مجموعی ثواب زیادہ ہوجاتا ہے۔
اس لئےوہ افضل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4238   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1370  
´نماز میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے۔`
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حال کیسا تھا؟ کیا آپ عمل کے لیے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1370]
1370. اردو حاشیہ: فائدہ: ہمیشگی اسی عمل پر ہوسکتی ہے جو افراط و تفریط سے ہٹ کر اعتدال پر مبنی ہو، اور مداومت اختیار کرنا ہی سب سے بڑی ریاضت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1370