صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
22. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ قِيلَ وَقَالَ:
باب: بےفائدہ بات چیت کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 6473
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُغِيرَةُ، وَفُلَانٌ، وَرَجُلٌ ثَالِثٌ أَيْضًا، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ وَرَّادٍ كَاتِبِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ كَتَبَ إِلَى الْمُغِيرَةِ، أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِحَدِيثٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيْهِ الْمُغِيرَةُ: إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ عِنْدَ انْصِرَافِهِ مِنَ الصَّلَاةِ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: وَكَانَ يَنْهَى عَنْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ، وَمَنْعٍ، وَهَاتِ، وَعُقُوقِ الْأُمَّهَاتِ، وَوَأْدِ الْبَنَاتِ"، وَعَنْ هُشَيْمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ وَرَّادًا، يُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے علی بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ایک سے زیادہ کئی آدمیوں نے خبر دی جن میں مغیرہ بن مقسم اور فلاں نے (مجالد بن سعید، ان کی روایت کو ابن خزیمہ نے نکالا) اور ایک تیسرے صاحب داود بن ابی ہند بھی ہیں، انہیں شعبی نے، انہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے کاتب وراد نے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ کو لکھا کہ کوئی حدیث جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو وہ مجھے لکھ بھیجو۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھتے «لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وحده لا شريك له،‏‏‏‏ له الملك،‏‏‏‏ وله الحمد،‏‏‏‏ وهو على كل شىء قدير» کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ یہ تین مرتبہ پڑھتے۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےفائدہ بات چیت کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال ضائع کرنے، اپنی چیز بچا کر رکھنے اور دوسروں کی مانگتے رہنے، ماؤں کی نافرمانی کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع فرماتے تھے۔ اور ہشیم سے روایت ہے، انہیں عبدالملک ابن عمیر نے خبر دی، کہا کہ میں نے وراد سے سنا، وہ یہ حدیث مغیرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 253  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض کے اختتام پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور حمد و ثنا اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو روک لے اسے عطا کرنے والا کوئی نہیں اور کسی صاحب نصیبہ کو تیرے بغیر بغیر کوئی نصیبہ نہیں دیتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 253»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الذكر بعد الصلاة، حديث:844، ومسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة، حديث:593.»
تشریح:
1. اس حدیث میں منقول دعا اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ وحدہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں کہ جس کی طرف حاجات اور ضروریات کی تکمیل کے لیے رجوع کیا جا سکے۔
دنیا و مافیہا اور آسمانوں کی ہر ایک چیز اس کی مخلوق ہے اور مخلوق اپنے خالق کی ہر وقت محتاج ہے۔
وہ قادر مطلق ہے‘ کسی کو کچھ دینے اور نہ دینے کے جملہ اختیارات بلا شرکت غیرے اسی کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں۔
اس کی سرکار میں دنیوی جاہ و حشمت اور عزت و سلطنت اس کے فضل اور رحمت کے سوا ذرہ بھر بھی کارگر اور منافع بخش ثابت نہیں ہو سکتیں۔
2. یہ دعا فرض نماز سے فارغ ہو کر پڑھنی مستحب ہے۔
اور تشہد پڑھنے کے بعد‘ سلام پھیرنے سے پہلے‘ یعنی نماز کے اندر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1505  
´آدمی سلام پھیرے تو کیا پڑھے؟`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے سلام پھیرتے تو کیا پڑھتے تھے؟ اس پر مغیرہ نے معاویہ کو لکھوا کے بھیجا، اس میں تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اسی کے لیے حمد ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! جو تو دے، اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک دے، اسے کوئی دے نہیں سکتا اور مالدار کو اس کی مال داری نفع نہیں دے سکتی پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1505]
1505. اردو حاشیہ: کہاں یہ زبان رسالت مآب ﷺ کے اوراد مبارکہ اور کہاں جاہل صوفیوں کے خود ساختہ وظیفے سچ ہے۔ قدر زر زرگر بد اند یا بداند جوہری یہ اصحاب الحدیث کا ہی شرف ہے۔ کہ وہ رسالت مآب ﷺ کے ہر ہر فعل کو اپنا لینا ہی سعادت جانتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1505   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6473  
6473. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ کوئی حدیث جو تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو مجھے لکھ بھیجو، چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے انہیں لکھا: میں نے آپ ﷺ سے سنا: آپ نماز سے فراغت کے بعد یہ پڑھتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کے لیے بادشاہت ہے اور وہی حمد وثنا کا سزاوار ہے۔ اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ یہ تین مرتبہ پڑھتے تھے، نیز آپ فضول گفتگو، زیادہ سوال کرنے مال کے ضیاع اپنی چیز بچا کر رکھنے دوسروں کی چیز مانگنے ماؤں کی نافرمانی کرنے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے۔ ہشیم کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالملک بن عمیر نے بتایا، انہوں نے کہا: میں نے وراد سے سنا، وہ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے وہ نبی ﷺ سے یہ حدیث بیان کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6473]
حدیث حاشیہ:
(1)
قیل و قال سے مراد ایسی لچر اور فضول گفتگو جس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔
بندۂ مومن کو ایسی فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام تعلیم تھی کہ بلا ضرورت اور بے فائدہ باتیں کرنے سے زبان کو روکا جائے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے:
انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول باتوں اور بے فائدہ کاموں سے بچے۔
(سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 3976) (2)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلا ضرورت اور بے فائدہ گفتگو نہ کرنا اور لغو و فضول مشاغل سے خود کو محفوظ رکھنا انسان کے اچھے اسلام کی علامت اور اس کے ایمان کی خوبی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان لغویات سے خود کو محفوظ رکھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6473