صحيح البخاري
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
30. بَابُ لِيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ وَلاَ يَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَهُ:
باب: اسے دیکھنا چاہئے جو نیچے درجہ کا ہے اسے نہیں دیکھنا چاہئے جس کا مرتبہ اس سے اونچا ہے۔
حدیث نمبر: 6490
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا نَظَرَ أَحَدُكُمْ إِلَى مَنْ فُضِّلَ عَلَيْهِ فِي الْمَالِ وَالْخَلْقِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں نے کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال اور شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اسے ایسے شخص کا دھیان کرنا چاہئے جو اس سے کم درجہ کا ہے۔
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1237  
´اپنے سے کم نعمت والوں کی طرف دیکھو`
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏انظروا إلى من هو اسفل منكم ولا تنظروا إلى من هو فوقكم فهو اجدر ان لا تزدروا نعمة الله عليكم متفق عليه»
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی طرف دیکھو جو تم سے نیچے ہے اور اس شخص کی طرف نہ دیکھو جو تم سے اوپر ہے یہ زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی اس نعمت کو حقیر نہ جانو جو تم پر ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1237]

تخریج:
[بخاري 6490]،
[مسلم، الزهد 7428]،
[بلوغ المرام: 1237]

مفردات:
«أسفل» لام پر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں رفع اس لئے کہ یہ ھو کی خبر ہے اور نصب اس لئے کہ یہ ھو کی محذوف خبر کاسن کے لئے مفعول فیہ (ظرف) ہے۔
«أن لا تزدروا» یہ باب افتعال سے ہے اس کا مادہ زری ہے۔ «زريت عليه» اور «ازريت به» میں نے اس کی تحقیر کی یہ اصل میں «تزتريوا» تھا افتعال کی تاء اگر زاء کے بعد آ جائے تو اسے دال سے بدل دیتے ہیں۔

فوائد:
➊ اگر کوئی شخص انہی لوگوں کی طرف دیکھے جنہیں دنیا کی نعمتیں اس سے زیادہ دی گئی ہیں تو خطرہ ہے کہ اس کے دل میں خالق کا شکوہ پیدا ہو جائے یا اس شخص پر حسد پیدا ہو جائے۔ اور یہ دونوں چیزیں اس کی بربادی کا باعث ہیں۔ حدیث میں اس کا علاج بتایا گیا ہے۔ جب وہ ان لوگوں کو دیکھے گا جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے بھی نیچے ہیں اس کا دل خالق کے شکر، اپنی حالت پر صبر و قناعت اور دوسرے بھائیوں پر رحم سے بھر جائے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہیں جانے گا۔
➋ اپنے سے نیچے سے مراد وہ ہے جو دنیاوی نعمتوں میں اس سے کمتر ہے۔ اگر تندرست ہے تو بیماری میں مبتلا لوگوں کی طرف دیکھے اس سے اسے اللہ کی عطا کردہ صحت پر شکر کی نعمت حاصل ہو گی۔ اگر بیمار ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی زیادہ بیمار ہیں بلکہ ان کے اعضاء ہی نہیں ہیں وہ اندھے بہرے، لنگڑے یا کوڑھی ہیں۔ اس سے اسے اپنی عافیت کی قدر معلوم ہو گی۔ اگر تنگدست ہے تو انہیں دیکھے جو اس سے بھی بڑھ کر فقیر ہیں جنہیں محتاجی نے سراسر ذلیل کر دیا ہے۔ یا وہ قرض کے خوفناک بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ غرض دنیا کی کسی آزمائش میں مبتلا ہو اسے اپنے سے بڑھ کر مصیبت میں مبتلا لوگ ہزاروں کی تعداد میں مل جائیں گے ان کے حال پر غور کرے گا تو اسے شکر، صبر اور قناعت کی نعمت حاصل ہو گی۔
➌ دین کے معاملات میں ہمیشہ ان لوگوں کو دیکھے جو اس سے اوپر ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَفِي ذَٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ» [83-المطففين:26]
اور اسی (جنت) میں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کریں وہ لوگ جو ایک دوسرے کے مقابلے میں کسی چیز میں رغبت کرتے ہیں۔
اور فرمایا:
«فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ» [5-المائدة:48]
پسں نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔
جب نعمتوں میں اپنے سے کمتر لوگوں کو اور نیکیوں میں اپنے سے بالاتر لوگوں کو دیکھے گا۔ تو پہلی نظر سے اللہ کی نعمتوں پر شکر کرے گا اور اللہ پر خوش ہو جائے گا۔ اور دوسری نظر سے اسے اپنی کوتاہیوں کا احساس ہو گا، پروردگار کے سامنے حیا کی وجہ سے انتہائی عجز اختیار کرے گا اور ندامت کے احساس سے گناہوں سے تائب ہو کر اپنے سے بالاتر لوگوں کی صف میں شامل ہونے کی کو شش کرے گا۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 29   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4142  
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔‏‏‏‏ ابومعاویہ نے «فوقكم» کی جگہ «عليكم» کا لفظ استعمال کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4142]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
نیچے والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی نعمت میں ہم سے کم ہے اور اوپر والے سے مراد وہ شخص ہے جو کسی نعمت میں ہم سے بڑھ کر ہے۔

(2)
اپنے سے زیادہ نعمت والے کو دیکھنے سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مجھے یہ نعمت کم حاصل ہےاس کمی کو شیطان اس انداز سے پیش کرتا ہے گویا یہ نعمت حاصل ہی نہیں۔
اس طرح محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے جس سے شکر کے بجائے اللہ سے شکوہ کرنے کو جی چاہتا ہے جو ناشکری کی ایک بڑی صورت ہے۔

(3)
اپنے سے کم تر پر نظر ڈالنے سے حاصل شدہ نعمت کی قدر معلوم ہوتی ہے جس سے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

(4)
ہر نعمت کے بارے میں یہ کیفیت ہے کہ ایک فرد کو وہ نعمت کسی سے کم ملی ہے تو وہی نعمت اسے کسی دوسرے سے زیادہ بھی ملی ہے۔
اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اگر ایک فرد کو وہ نعمت کسی سے کم ملی ہے تو کوئی دوسری نعمت اسے زیادہ بھی ملی ہے جیسے ایک شخص کسی سے کم دولت رکھتا ہےاور کسی سے زیادہ دولت مند بھی ہے۔
اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر وہ اس سے دولت میں کم ہے تو صحت وقوت میں اس سے بڑھ کر ہےاگر حسن صورت میں کم ہے تو علم وفضل یا حسن سیر ت میں میں اس سے زیادہ بھی ہے لہٰذا احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اللہ سے شکوہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4142   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6490  
6490. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں کوئی شخص کسی ایسے آدمی کو دیکھے جو مال ودولت اور شکل وصورت میں اس سے بڑھ کر ہے تو اس وقت اسے ایسے شخص کو بھی دیکھنا چاہیئے جو اس سے کم درجے کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6490]
حدیث حاشیہ:
انسان کی یہ ایک فطری کمزوری ہے کہ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو مال و دولت یا شکل و صورت میں اس سے بڑھ کر ہو تو اس میں طمع اور حرص پیدا ہوتی ہے اور اسے خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس طرح کا کیوں نہیں بنایا۔
اس حدیث میں اس روحانی بیماری کا علاج تجویز کیا گیا ہے کہ اپنے سے غریب و مفلس اور کم زور بندوں کو دیکھ لے۔
ایسا کرنے سے اس کی بیماری کا علاج ہو جائے گا۔
اس کی مزید وضاحت درج ذیل حدیث میں ہے:
جس شخص میں دو خصلتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ اسے اپنے ہاں صابر و شاکر لکھے گا:
جس شخص کی عادت ہو کہ وہ دین کے معاملے میں تو ان بندوں پر نظر رکھے جو دین میں اس سے بڑھ کر ہوں اور ان کی پیروی اختیار کرے اور دنیا کے معاملے میں اپنے سے خستہ حال کو دیکھے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے برتری دی ہے تو اللہ کے ہاں صابر و شاکر لکھا جائے گا۔
اور جو آدمی دینی معاملات میں اپنے سے ادنیٰ لوگوں کو دیکھے اور دنیا کے متعلق اپنے سے ادنیٰ لوگوں کو دیکھے اور دنیا کے متعلق اپنے سے بالاتر اور اونچے کو دیکھے اور جو دنیاوی نعمتیں اسے نہیں ملیں ان پر افسوس اور رنج کا اظہار کرے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ صابر و شاکر نہیں لکھا جائے گا۔
(جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2512)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6490