صحيح البخاري
كِتَاب الْقَدَرِ -- کتاب: تقدیر کے بیان میں
4. بَابُ: {وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَرًا مَقْدُورًا} :
باب: اور اللہ نے جو حکم دیا ہے (تقدیر میں جو کچھ لکھ دیا ہے) وہ ضرور ہو کر رہے گا۔
حدیث نمبر: 6605
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عُودٌ يَنْكُتُ فِي الْأَرْضِ وَقَالَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا قَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَلَا نَتَّكِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" لَا اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ، ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى سورة الليل آية 5 الْآيَةَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے، ان سے ابوعبدالرحمٰن سلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسی اثناء میں) فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص کا جہنم کا یا جنت کا ٹھکانا لکھا جا چکا ہے، ایک مسلمان نے اس پر عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر کیوں نہ ہم اس پر بھروسہ کر لیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں عمل کرو کیونکہ ہر شخص (اپنی تقدیر کے مطابق) عمل کی آسانی پاتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «فأما من أعطى واتقى‏» الآیہ پس جس نے راہ للہ دیا اور تقویٰ اختیار کیا ... الخ۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 85  
´عمل کی اہمیت`
«. . . عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَة فِي بَقِيع الْغَرْقَد فَأَتَانَا النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقعدَ وقعدنا حوله وَمَعَهُ مخصرة فَنَكس فَجعل ينكت بمخصرته ثمَّ قَالَ مَا مِنْكُم من أحد مَا من نفس منفوسة إِلَّا كتب مَكَانهَا من الْجنَّة وَالنَّار وَإِلَّا قد كتب شقية أَو سعيدة فَقَالَ رجل يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدع الْعَمَل فَمن كَانَ منا من أهل السَّعَادَة فسيصير إِلَى عمل أهل السَّعَادَة وَأما من كَانَ منا من أهل الشقاوة فسيصير إِلَى عمل أهل الشقاوة قَالَ أما أهل السَّعَادَة فييسرون لعمل السَّعَادَة وَأما أهل الشقاوة فييسرون لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ - [32] - (فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصدق بِالْحُسْنَى) ‏‏‏‏الْآيَة ‏‏‏‏ . . .»
. . . اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر شخص کا ٹھکانا دوزخ یا جنت میں لکھا جا چکا ہے یعنی جہنمی یا جنتی ہونا اللہ کے علم میں مقرر ہو چکا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر تو ہم اپنی لکھی ہوئی تقدیر پر بھروسہ نہ کر لیں اور عمل کو چھوڑ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عمل کو نہ چھوڑو بلکہ) کام کیے جاؤ جس چیز کے لیے جس کو پیدا کیا گیا ہے وہی چیز اس کے لیے آسان کر دی گئی ہے اگر وہ نیک بخت ہے تو نیک بختی کے کام اس کے لیے آسان کر دیے جائیں گے اور اگر وہ بدبخت ہے تو بدبختی کے کام اس کے لیے آسان کر دیئے جائیں گے اس کے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی کہ «فاما من اعطي» الاية اور جس نے دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور کلمہ حسنیٰ کو مان لیا۔ اس حدیث کو بخاری مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 85]

تخریج:
[صحيح بخاري 1362]،
[صحيح مسلم 6731]

فقہ الحدیث:
➊ سورۂ لیل کی باقی مشار إلیھا آیات درج ذیل ہیں:
«فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَى ﴿٨﴾ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى ﴿٩﴾ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى ﴿١٠﴾ »
پس ہم اسے عنقریب آسانی مہیا کریں گے، اور جس نے بخل کیا اور (ثواب و عذاب سے) بے پرواہ بنا اور سب سے اچھی چیز (دین اسلام) کو جھٹلایا تو ہم عنقریب اس کے لئے تنگی (عذاب) آسان کر دیں گے۔ [الليل: 7۔ 10]
↰ معلوم ہوا کہ حدیث قرآن مجید کی تفسیر، تشریح، تصدیق اور بیان ہے۔
➋ صرف یہ کہنا کہ ہماری تقدیر میں جو لکھا ہوا ہے ہمیں ملے گا اور اس سے استدلال کرتے ہوئے نیک اعمال نہ کرنا غلط ہے۔ جنت میں داخلے کے لئے تین شرائط مقرر ہیں:
① ایمان (عقیدہ صحیحہ)
② نیک اعمال
③ اللہ کا فضل و کرم اور رحمت
پوری محنت اور ولولہ انگیز عزم سے شریعت پر عمل کریں اور اللہ سے امید رکھیں کہ وہ اپنے خاص فضل و کرم اور رحمت سے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور ساری خطائیں معاف فرما دے گا۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔
➌ جس مسئلے کا علم نہ ہو یا کوئی اشکال ہو تو علمائے حق سے پوچھ لینا چاہئے تاکہ آدمی صراط مستقیم پر گامزن رہے۔
➍ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔
➎ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ ہر آدمی کے لئے دو ٹھکانے لکھے ہوئے ہیں:
① جنت کا ٹھکانا
② جہنم کا ٹھکانا۔ دیکھئے: صحیح بخاری [1374] صحیح مسلم [70؍2870] اور اضواء المصابیح [126]
جو شخص صحیح عقیدے اور نیک اعمال کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ ہر وقت اپنی خطاؤں پر نادم و تائب رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل و کرم اور رحمت سے جہنم کے ٹھکانے سے بچا کر جنت کے ٹھکانے میں داخل کر دیتا ہے۔ رہا کافر و مشرک اور بدبخت تو اسے جنتی ٹھکانا دکھا کر دور ہٹایا جاتا ہے اور جہنمی ٹھکانے میں داخل کر دیا جاتا ہے، تاکہ وہ افسوس و ندامت سے مسلسل عذاب کا مزہ چکھتا رہے۔ «أعاذنا الله من غضبه ومن عذاب القبر ومن خزي يوم القيامة»
➏ اہل علم سے مسئلہ پوچھتے وقت ان کا نام نہیں لینا چاہئیے، بلکہ عزت و احترام اور انتہائی ادب کے ساتھ سوال کر کے جواب کا انتظار کرنا چاہئیے۔
➐ دنیا میں انسان کی اچھائی اور برائی کا فیصلہ اس کے ظاہری اعمال و عقائد کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے، رہے باطنی اعمال و عقائد تو ان سے صرف اللہ ہی باخبر ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 85   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث78  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زمین کو کریدا، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: جنت و جہنم میں ہر شخص کا ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم اس پر بھروسہ نہ کر لیں (اور عمل چھوڑ دیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، عمل کرو، اور صرف لکھی تقدیر پر بھروسہ نہ کر کے بیٹھو، اس لیے کہ ہر ایک کو اسی عمل کی توفیق دی جاتی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «فأما من أعطى واتقى و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 78]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں تقدیر الہی کا ثبوت ہے۔

(2)
ہر انسان کے انجام کے متعلق فیصلہ ہو چکا ہے اور یوں جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانہ مقرر ہے۔

(3)
تقدیر علم الہی کا نام ہے، بندے کو مجبور کرنے کا نام نہیں۔

(4)
جنت اور جہنم میں داخلے کا تعلق بندوں کے اعمال سے ہے۔
کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قسمت میں کیا ہے، اس لیے نیک اعمال کرنے کی کوشش کرنا اور گناہوں سے بچتے رہنا فرض ہے۔

(5)
تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ انسان محنت اور کوشش ترک کر دے بلکہ اسے چاہیے کہ اللہ کے احکام کی تعمیل میں پیش آنے والے خطرات سے خوف زدہ نہ ہو اور مشکلات میں گِھر کر اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جائے کیونکہ اگر قسمت میں کامیابی لکھی ہے تو وہ ان مشکلات و مصائب کے بعد مل کر رہے گی اور اگر نہیں تو محنت اور نیت کا ثواب تو ضرور ملے گا۔
اللہ تعالیٰ کسی کی نیکی ضائع نہیں فرماتا۔

(6)
جو جاہل لوگ فسق و فجور میں مشغول رہتے ہیں اور کہتے ہیں جو تقدیر میں ہے وہی ہو گا، یہ ان کی حماقت ہے بلکہ عمل سعادت و شقاوت کی علامت ہیں، جس کے عمل اچھے ہیں امید ہے کہ وہ سعید ہو گا اور جس کے برے ہیں، اندیشہ ہے کہ وہ شقی ہو گا۔
بہرحال ہر ایک کو اچھے اعمال میں رغبت کرنی چاہیے اور گناہ سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص پر چوری کی حد لگانے لگے، تو وہ کہنے لگا:
تقدیر میں یوں ہی لکھا تھا، میرا کیا قصور ہے۔
آپ نے فرمایا:
تقدیر کے مطابق ہی ہم تمہارا ہاتھ کاٹ رہے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 78   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3344  
´سورۃ «واللیل إذا یغشی» سے بعض آیات کی تفسیر۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم (قبرستان) بقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، آپ بیٹھ گئے، ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ بیٹھ گئے، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی، آپ اس سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا: ہر متنفس کا ٹھکانہ (جنت یا جہنم) پہلے سے لکھ دیا گیا ہے، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم اپنے نوشتہ (تقدیر) پر اعتماد و بھروسہ کر کے بیٹھ رہیں؟ جو اہل سعادہ نیک بختوں میں سے ہو گا وہ نیک بختی ہی کے کام کرے گا، اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ بدبختی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3344]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور ڈرا (اپنے رب سے) اور نیک بات کی تصدیق کرتا رہے گا تو ہم بھی اس کو آسان راستے کی سہولت دیں گے،
لیکن جس نے بخیلی کی اور بے پرواہی برتی اور نیک بات کی تکذیب کی تو ہم بھی اس کی تنگی اور مشکل کے سامان میسر کر دیں گے (اللیل: 5-10)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3344   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4694  
´تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4694]
فوائد ومسائل:
تقدیر اللہ عز وجل کے ازلی وابدی علم کا نام ہے اور ہرشخص کے بارے میں ریکارڈ ہو چکا ہے کہ کو ن کہاں جانے والا ہے، جنت میں یا دوزخ میں۔
اللہ عزوجل کا یہ علم ازلی غلط نہیں ہوسکتا۔
وہ علیم وخبیر ہےاس کے علم میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں۔
مگر کوئی اس مستقبل کے ریکارڈ کو اپنے لئے عذر بنا لے۔
۔
۔
۔
۔
حالانکہ اس کو خبر نہیں کہ کیا لکھا ہے تو یہ لغو محض ہے، تعجب ہے کہ لوگ شرعی تکلیفات میں تقدیر کو بہانہ بناتے ہیں، مگر اپنی ہوا وہوس کے معاملات میں سر توڑ محنت اور کوشش کرتے ہیں اور ان سے باز نہیں رہتے۔
آخرت کے انجام کے سلسلے میں اس دنیا میں ایک علامت ضرور رکھی دی گئی ہے کہ نیکی کا عزم رکھنے والے اور اس میں محنت کرنے والے نیکی کے احوال وظروف کی تائید ملتی رہتی ہے۔
ایسے شخص کے بارے میں امید کرنی چاہیے کہ اس کی عاقبت بھی بفضل اللہ عمدہ ہو گی۔
اور جو شخص بد عملی میں ملوث اور اس کے لئے سر گرداں ہو، اسے انہی مقاصد کے لئے احوال کی تائید مہیا ہو جاتی ہے۔
باوجودیکہ سب کچھ پہلے سے ریکارڈ کر لیا گیا ہے، لیکن انسان خود اس کے متعلق بالکل بے خبر ہے، وہ اپنی مرضی سے اپنی راہ خود چنتا ہے اور خود اس پر چلتا ہے۔
اب یہ اس کا اپنا فیصلہ اوراختیار ہے کہ وہ کونسی راہ اپناتا ہے۔
اللہ تعالی نے فر مایا ہم نےانسان کو رستے کی رہنمائی کردی ہے خواہش کر گزار بن جائے یا نا شکرا اور فرمایا ہم نے انسان کو ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا رخ کرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4694   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6605  
6605. حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا جنت وجہنم میں ٹھکانا لکھا جا چکا ہے۔ حاضرین میں سے ایک آدمی نےکہا: اللہ کے رسول! پھر ہم کیوں نہ اس پر بھروسا کر لیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں،تم عمل کرو (جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے) اس کے لیے وہ چیز آسان کر دی گئی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔ آخر تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6605]
حدیث حاشیہ:
(1)
پوری آیات کا ترجمہ:
پھر جس نے مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی اور بھلی باتوں کی تصدیق کی تو یقیناً ہم اسے آسان راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں اور جس نے بخل سے کام لیا اور بے پروا بنا رہا اور بھلائی کو جھٹلایا تو یقیناً ہم اسے تنگی کی راہ پر چلنے کی سہولت دیتے ہیں۔
(اللیل: 5/92، 10) (2)
بھلی بات سے مراد ایمان بالغیب بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی آیات بھی ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید بھی، رسول کی تصدیق بھی اور اخلاق فاضلہ کی بجا آوری بھی۔
عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ جو شخص مذکورہ بالا کام کرے اس کے لیے احکام شریعت پر چلنا اور جنت میں داخلے کا مستحق ہونا آسان بنا دیا جاتا ہے اور اسے نیکی کے کاموں کی توفیق دی جاتی ہے حتی کہ بدی کی راہ پر چلنا انسان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس دوسرے شخص کے لیے جہنم کا راستہ آسان اور نیکی کی راہیں بہت مشکل بنا دی جاتی ہیں، پھر اس کی زندگی گناہ اور حرام کاموں میں گزرتی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
اللہ کے رسول! جب سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے تو پھر عمل کس لیے ہوا؟ آپ نے فرمایا:
عمل کے بغیر تو جنت نہیں مل سکتی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کی:
اللہ کے رسول! پھر تو ہم عمل کرنے میں جان توڑ کوشش کریں گے۔
(فتح الباري: 606/11) (3)
حیرت کی بات ہے کہ جس حدیث کو سن کر آج عمل چھوڑ دینے کا عہد کیا جاتا ہے، اسی کو سن کر کل صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جدوجہد کا عہد کرتے تھے۔
بات اصل یہ ہے کہ وہ حکم کے فرمانبردار تھے لیکن ہم عقل کے بندے ہیں۔
عقل بے چاری دنیا کی معمولی الجھنیں نہیں سلجھا سکتی، وہ تقدیر کے مسئلے کو کیسے حل کر سکتی ہے؟ ہاں، جب وہ بھی اسلام قبول کر لیتی ہے تو پھر مسائلِ شریعت میں اس کے نزدیک کوئی الجھن، الجھن نہیں رہتی؟ پھر اس میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ جتنا اختیار اسے مل چکا ہے، اسے کام میں لانا اپنا فرض منصبی خیال کرتی ہے۔
(4)
تقدیر کا ہمیں علم نہیں تو پھر عمر میں اختیار سے کام کیوں نہ لیا جائے؟ رہا کسی شخص کے انجام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے پیشگی علم کا مسئلہ تو اللہ تعالیٰ کا یہ علم کسی شخص کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق فیصلہ کر رکھا ہے۔
بہرحال انسان کو جیسا اور جتنا اختیار ملا ہے اس سے فائدہ اٹھائے۔
(5)
تقدیر کے مسئلے کو ہم ایک مثال سے حل کرتے ہیں کہ ایک مریض کسی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور وہ اس کی تشخیص کر کے اپنے تجربے کے پیش نظر کسی کاغذ پر لکھ دیتا ہے کہ اس نے دوسرے دن مر جانا ہے، پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے دن مر جاتا ہے، اب کیا وہ اس تحریر سے پابند ہو گیا ہے کہ وہ دوسرے دن ہی مرے گا، اگر ڈاکٹر نہ لکھتا تو کیا وہ مریض زندہ رہتا؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگی تحریر یا مشیت یا تقدیر کی بات اسے مجبور سمجھنے کی دلیل نہیں بلکہ یہ جو کام بھی کرتا ہے اپنے عزم اور کھلے اختیار سے کرتا ہے۔
تقدیر تو اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے نہ کہ اس کے مجبور محض بننے کی۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6605