صحيح البخاري
كِتَاب الْقَدَرِ -- کتاب: تقدیر کے بیان میں
6. بَابُ إِلْقَاءِ النَّذْرِ الْعَبْدَ إِلَى الْقَدَرِ:
باب: نذر کرنے سے تقدیر نہیں پلٹ سکتی۔
حدیث نمبر: 6609
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَأْتِ ابْنَ آدَمَ النَّذْرُ بِشَيْءٍ لَمْ يَكُنْ قَدْ قَدَّرْتُهُ، وَلَكِنْ يُلْقِيهِ الْقَدَرُ وَقَدْ قَدَّرْتُهُ لَهُ، أَسْتَخْرِجُ بِهِ مِنَ الْبَخِيلِ".
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نذر (منت) انسان کو کوئی چیز نہیں دیتی جو میں (رب) نے اس کی تقدیر میں نہ لکھی ہو بلکہ وہ تقدیر دیتی ہے جو میں (رب) نے اس کے لیے مقرر کر دی ہے، البتہ اس کے ذریعہ میں بخیل کا مال نکلوا لیتا ہوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2123  
´نذر سے ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا مگر وہ جو اس کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے، لیکن آدمی کی تقدیر میں جو ہوتا ہے وہ نذر پر غالب آ جاتا ہے، تو اس نذر سے بخیل کا مال نکالا جاتا ہے، اور اس پہ وہ بات آسان کر دی جاتی ہے، جو پہلے آسان نہ تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تو مال خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2123]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  سخی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا رہتا ہے۔
اسے نذر ماننے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

(2)
  مشروط نذر ماننا بخیلوں کا کام ہے۔
نذر ماننے والا کہتا ہے:
اگر میرا فلاں کام ہو گیا یا فلاں مصیبت ٹل گئی تو اتنی رقم صدقہ کروں گا، گویا وہ کہہ رہا ہے کہ اگر میرا کام نہ ہوا تو یہ صدقہ نہیں کروں گا۔
اس لحاظ سے نذر مکروہ ہے۔

(3)
  غیر مشروط نذر یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ سے وعدہ کرے کہ فلاں نیکی کا کام کروں گا۔
یہ ثواب کا کام ہے۔

(4)
  نذر ایک عبادت ہے اس لیے نذر خواہ مخواہ مشروط ہو یا غیر مشروط صرف اللہ ہی کے لیے ماننی چاہیے۔
کسی ولی، مزار یا بت وغیرہ کے لیے نذر ماننا اس کی عبادت ہے جو شرک ہے۔

(5)
  اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرنے سے مال میں برکت ہوتی ہے اور مشکلات دور ہوتی ہیں۔

(6)
  ہوتا وہی ہے جو اللہ چاہتا ہے لیکن دعا، نذر اور دیگر عبادتوں کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں اسی سے امید وابستہ کرتے ہیں کہ اپنی رحمت سے ہماری حاجتیں پوری کرے اور مشکلات دور فرمائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2123   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1538  
´نذر کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نذر مت مانو، اس لیے کہ نذر تقدیر کے سامنے کچھ کام نہیں آتی، صرف بخیل اور کنجوس کا مال اس طریقہ سے نکال لیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1538]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نذر سے منع کرنا دراصل بہتر کی طرف رہنمائی کرنا مقصود ہے،
صدقہ وخیرات کو مقصود کے حصول سے معلق کرنا کسی بھی صاحب عظمت ومروت کے شایان شان نہیں،
یہ عمل اس بخیل کا ہے جو کبھی خرچ نہیں کرتا اور کرنے پر بہترچیز کی خواہش رکھتا ہے اور ایسا وہی شخص کرتاہے جس کا دل صدقہ و خیرات کرنا نہیں چاہتا صرف کسی تنگی کے پیش نظر اصلاح حال کے لیے صدقہ وخیرات کی نذر مانتا ہے،
نذر سے منع کرنے کی یہی وجہ ہے (واللہ اعلم)۔

2؎:
اور اگر معصیت کی نذر ہو تو اس کا پورا کرنا صحیح نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1538   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3288  
´نذر کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ کہتا ہے:) نذر ابن آدم کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لا سکتی جسے میں نے اس کے لیے مقدر نہ کیا ہو لیکن نذر اسے اس تقدیر سے ملاتی ہے جسے میں نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، یہ بخیل سے وہ چیز نکال لیتی ہے جسے وہ اس نذر سے پہلے نہیں نکالتا ہے (یعنی اپنی بخالت کے سبب صدقہ خیرات نہیں کرتا ہے مگر نذر کی وجہ سے کر ڈالتا ہے) ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3288]
فوائد ومسائل:
نذر ماننا اس معنی میں منع ہے۔
جیسے کہ جہلا ء سمجھتے ہیں۔
کہ اس سے فوری طور پرکوئی فائدہ ہوگا۔
یا کسی نقصان سے بچائو ہوجائے گا۔
ورنہ مطلقا ً اللہ کا قرب حاصل کرنےکےلئے کسی عبادت کو اپنے اوپر لازم کرلینا مشروع ہے۔
اور پھر اس کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔
اور اسی کو نذر کہا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3288   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6609  
6609. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (اللہ تعالٰی فرماتا ہے:) ںذر، بندے کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں لاتی جو میں نے اس کے لیے مقدر نہ کی ہو بلکہ تقدیر اسے وہ چیز دیتی ہے جو میں نے اس کے لیے مقرر کر دی ہے البتہ میں اس کے ذریعے سے بخیل سے مال نکلوا لیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6609]
حدیث حاشیہ:
(1)
انسانی بخل کی حد ہے کہ وہ اپنے خالق کی بارگاہ میں بھی اس وقت تک اپنا مال خرچ کرنا پسند نہیں کرتا جب تک اس سے اپنا معاوضہ وصول نہ کرے اور وہ بھی ہمیشگی، یعنی وہ بھی نذرونیاز ادا کرنے کا عزم اس وقت کرتا ہے جب اس کا مریض پہلے شفایاب ہو جائے، جبکہ حدیث کہتی ہے کہ کارکنانِ قضا و قدر کے سامنے یہ مشروط نذرونیاز بے کار اور لاحاصل بات ہے وہ ایک طے شدہ معاملہ ہے جو ہو کر رہے گا۔
اس طرح کی مشروط نذریں تقدیر کے فیصلوں پر ذرا بھر بھی اثر انداز نہیں ہوتیں، صدقہ کرنے سے بےشک بلائیں ٹل جاتی ہیں، اس لیے اگر تم یہ چاہتے ہو تو شرط کیے بغیر صدقہ دیتے رہو۔
اگر عالم تقدیر میں یہ طے پا چکا ہے کہ تم صدقہ کرو گے تو یہ بلا تم سے ٹل جائے گی تو تمہارا مقصد بھی پورا ہو جائے گا اور تمہارے اس بخل کا مظاہرہ بھی نہیں ہو گا۔
(2)
بہرحال امور مقدرہ کے لیے اسباب بھی مقدر ہوتے ہیں۔
اس طرح یہ بھی حدیث میں ہے کہ بعض اسباب ایسے ہیں جن کا ارتکاب بے فائدہ ہے، عالم تقدیر پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اس لیے ایسے اسباب کو بروئے کار لانا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ حماقت بھی ہے جیسا کہ عورت کسی مرد سے شادی کرنے کے لیے یہ شرط لگائے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے دو، اسی طرح صدقہ و خیرات کرنے کے لیے یہ شرط لگانا کہ اگر میرا یہ کام ہو گا تو اتنا روپیہ اللہ تعالیٰ کے لیے دوں گا، اس قسم کے اسباب اسی میں داخل ہیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6609