صحيح البخاري
كِتَاب الْقَدَرِ -- کتاب: تقدیر کے بیان میں
12. بَابُ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَى اللَّهُ:
باب: جسے اللہ دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
حدیث نمبر: 6615
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ: اكْتُبْ إِلَيَّ مَا سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاةِ، فَأَمْلَى عَلَيَّ الْمُغِيرَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ خَلْفَ الصَّلَاةِ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ"، وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عَبْدَةُ، أَنَّ وَرَّادًا، أَخْبَرَهُ بِهَذَا، ثُمَّ وَفَدْتُ بَعْدُ إِلَى مُعَاوِيَةَ، فَسَمِعْتُهُ يَأْمُرُ النَّاسَ بِذَلِكَ الْقَوْلِ.
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن ابی لبابہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے غلام وردا نے بیان کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ دعا لکھ کر بھیجو جو تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے بعد کرتے سنی ہے۔ چنانچہ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو لکھوایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے «اللهم لا مانع لما أعطيت،‏‏‏‏ ولا معطي لما منعت،‏‏‏‏ ولا ينفع ذا الجد منك الجد» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اے اللہ! جو تو دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے سامنے دولت والے کی دولت کچھ کام نہیں دے سکتی۔ اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ کو عبدہ نے خبر دی اور انہیں وردا نے خبر دی، پھر اس کے بعد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ لوگوں کو اس دعا کے پڑھنے کا حکم دے رہے تھے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 253  
´نماز کی صفت کا بیان`
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض کے اختتام پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں۔ فرمانروائی اسی کی ہے اور حمد و ثنا اسی کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو روک لے اسے عطا کرنے والا کوئی نہیں اور کسی صاحب نصیبہ کو تیرے بغیر بغیر کوئی نصیبہ نہیں دیتا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 253»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب الذكر بعد الصلاة، حديث:844، ومسلم، المساجد، باب استحباب الذكر بعد الصلاة، حديث:593.»
تشریح:
1. اس حدیث میں منقول دعا اس پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ وحدہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں کہ جس کی طرف حاجات اور ضروریات کی تکمیل کے لیے رجوع کیا جا سکے۔
دنیا و مافیہا اور آسمانوں کی ہر ایک چیز اس کی مخلوق ہے اور مخلوق اپنے خالق کی ہر وقت محتاج ہے۔
وہ قادر مطلق ہے‘ کسی کو کچھ دینے اور نہ دینے کے جملہ اختیارات بلا شرکت غیرے اسی کے قبضہ ٔقدرت میں ہیں۔
اس کی سرکار میں دنیوی جاہ و حشمت اور عزت و سلطنت اس کے فضل اور رحمت کے سوا ذرہ بھر بھی کارگر اور منافع بخش ثابت نہیں ہو سکتیں۔
2. یہ دعا فرض نماز سے فارغ ہو کر پڑھنی مستحب ہے۔
اور تشہد پڑھنے کے بعد‘ سلام پھیرنے سے پہلے‘ یعنی نماز کے اندر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1505  
´آدمی سلام پھیرے تو کیا پڑھے؟`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے سلام پھیرتے تو کیا پڑھتے تھے؟ اس پر مغیرہ نے معاویہ کو لکھوا کے بھیجا، اس میں تھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہت ہے، اسی کے لیے حمد ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ! جو تو دے، اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو روک دے، اسے کوئی دے نہیں سکتا اور مالدار کو اس کی مال داری نفع نہیں دے سکتی پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1505]
1505. اردو حاشیہ: کہاں یہ زبان رسالت مآب ﷺ کے اوراد مبارکہ اور کہاں جاہل صوفیوں کے خود ساختہ وظیفے سچ ہے۔ قدر زر زرگر بد اند یا بداند جوہری یہ اصحاب الحدیث کا ہی شرف ہے۔ کہ وہ رسالت مآب ﷺ کے ہر ہر فعل کو اپنا لینا ہی سعادت جانتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1505   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6615  
6615. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے آزاد کردہ غلام وراد سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ مجھے نبی ﷺ کی وہ دعا لکھ بھیجو جو تم نے آپ ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہو، چنانچہ حضرت مغیرہ ؓ نے مجھے لکھنے کا حکم دیا اور کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ! جو تو دینا چاہیئے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے حضور کسی دولت مند کی دولت کچھ کام نہیں آ سکتی۔ ابن جریج نے کہا: مجھے عبدہ نے خبر دی اور انہیں وراد نے بتایا، پھر اس کے بعد میں امیر معاویہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6615]
حدیث حاشیہ:
الفاظ دعا سے ہی کتاب القدر سے مناسبت نکلی۔
عبدہ بن ابی لبابہ کی سند ذکر کرنے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ عبدہ کا سماع وراد سے ثابت ہوا کیوں کہ اگلی روایت میں اس سماع کی صراحت نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6615   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6615  
6615. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے آزاد کردہ غلام وراد سے روایت ہے کہ حضرت امیر معاویہ ؓ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ مجھے نبی ﷺ کی وہ دعا لکھ بھیجو جو تم نے آپ ﷺ کو نماز کے بعد کرتے سنی ہو، چنانچہ حضرت مغیرہ ؓ نے مجھے لکھنے کا حکم دیا اور کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اے اللہ! جو تو دینا چاہیئے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روکنا چاہے اسے کوئی دینے والا نہیں اور تیرے حضور کسی دولت مند کی دولت کچھ کام نہیں آ سکتی۔ ابن جریج نے کہا: مجھے عبدہ نے خبر دی اور انہیں وراد نے بتایا، پھر اس کے بعد میں امیر معاویہ ؓ کے پاس گیا تو میں نے سنا کہ وہ لوگوں کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6615]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کو نماز کے بعد پڑھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے کیونکہ ان میں کمال توحید اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کی وسعت کا ذکر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تقدیر پر ایمان لانے کے اثرات کو بیان کرنے کے لیے روایت کیا ہے کہ اس سے مومن کا عقیدہ راسخ اور پختہ ہو جاتا ہے کہ عطا کرنے یا روک لینے کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو اس کے سوا کوئی اسے دور نہیں کر سکتا اور اگر وہ آپ سے کوئی بھلائی کرنا چاہے تو کوئی اسے ٹالنے والا نہیں۔
وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے، اس سے نوازتا ہے۔
(یونس: 107/10)
راسخ اور پختہ عقیدے کے نتیجے میں خودداری، جراءت مندی اور دلیری پیدا ہوتی ہے۔
جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ تمام چیزیں تقدیر الٰہی سے ہیں اسے پچھلی باتوں پر رنج اور مستقبل کا فکر دامن گیر نہیں ہوتا۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6615