صحيح البخاري
كِتَاب الْقَدَرِ -- کتاب: تقدیر کے بیان میں
14. بَابُ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ:
باب: اس آیت کا بیان کہ اللہ پاک بندے اور اس کے دل کے درمیان میں حائل ہو جاتا ہے۔
حدیث نمبر: 6617
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَثِيرًا مِمَّا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْلِفُ: لَا وَمُقَلِّبِ الْقُلُوبِ".
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو موسیٰ بن عقبہ نے خبر دی، ان سے سالم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا کرتے تھے کہ نہیں! دلوں کو پھیرنے والے کی قسم۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2092  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اور حلف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم اکثر یوں ہوتی تھی: «لا ومصرف القلوب» قسم ہے اس ذات کی جو دلوں کو پھیرنے والا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2092]
اردو حاشہ:
فائدہ:
مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح اور حسن قرار دیا ہے، نیز صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر ؓ ہی سے   «لَا وَمُصَرِّفِ الْقُلُوبِ» کی بجائے «لَا وَمُقَلِّبِ الْقُلُوبِ»  الفاظ مروی ہیں۔
بنابریں ان الفاظ ساتھ قسم کھانا جائز ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (الصحیحة، رقم: 2090، و سنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 2092)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2092   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1175  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کے الفاظ یہ ہوتے تھے نہیں، قسم ہے دلوں کے بدلنے والے کی۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1175»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب كيف كانت يمين النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:6628.»
تشریح:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا انداز و طریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے جو گفتگو یا بات ہو رہی ہوتی تھی اگر درست نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ لا سے اس کی تردید اور نفی فرماتے‘ پھر اللہ کے صفاتی نام سے قسم کھاتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات علیا سے بھی قسم کھانی جائز ہے‘ خواہ اس صفت کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہو جیسے علم اور قدرت‘ خواہ صفت فعلی سے ہو جیسا کہ قہر اور غلبہ وغیرہ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1175   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1540  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قسم کیسی ہوتی تھی؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھاتے تھے تو اکثر «لا ومقلب القلوب» کہتے تھے نہیں، دلوں کے بدلنے والے کی قسم ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1540]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث میں ر سول اللہ ﷺ کے قسم کھانے کا انداز وطریقہ بیان ہوا ہے کہ پہلے سے جوبات چل رہی تھی اگر صحیح نہ ہوتی تو آپ پہلے لفظ لا سے اس کی نفی اور تردید فرماتے،
پھر اللہ کے صفاتی نام سے اس کی قسم کھاتے،
یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی اسماء سے قسم کھانی جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1540   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3263  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کیسی ہوتی تھی؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اس طرح قسم کھاتے تھے: «لا، ‏‏‏‏ ومقلب القلوب» نہیں! قسم ہے دلوں کے پھیرنے والے کی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3263]
فوائد ومسائل:

اللہ عزوجل کی صفات کے ساتھ قسم کھانا عین توحید ہے۔

قسم کے شروع میں لا لگانا عربی زبان کا معروف اسلوب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3263   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6617  
6617. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اکثر طور پر یوں قسم اٹھایا کرتے تھے: نہیں، دلوں کو پھیرنے والے کی قسم!۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6617]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقلب القلوب کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندے کے دل کو ایمان سے کفر اختیار کرنے کی طرف اور کفر سے ایمان اختیار کرنے کی طرف پھیرنے والا ہے، یعنی ایک مومن کو کافر بنانے اور کافر کو کفر اختیار کرانے پر قادر ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے دل کی مثال اس پَر کی طرح ہے جو ایک چٹیل میدان میں پڑا ہو اور تیز و تند ہوائیں اس کو کبھی سیدھا اور کبھی الٹا کر رہی ہوں۔
(مسند أحمد: 419/4)
ایک وسیع جنگل میں تیز و تند ہوا اور ایک ذرا سے پَر کا بھلا کیا مقابلہ ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس سے مراد دل کے ارادوں کو پھیرنا ہے، چنانچہ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا فرمائی:
اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری پر جھکائے رکھنا۔
(مسند أحمد: 251/6) (3)
حق تعالیٰ کی علی الاطلاق قدرت اور بندوں کی انتہائی بے چارگی کا نقشہ اس سے زیادہ مؤثر اور مختصر انداز میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ دعا سنی تو عرض کرنے لگے کہ جب ہم آپ پر ایمان لا چکے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے متعلق اب بھی کوئی خطرہ باقی ہے تو آپ نے وہی الفاظ بیان فرمائے جو پہلی حدیث میں بیان ہو چکے ہیں۔
(جامع الترمذي، القدر، حدیث: 2140)
اس کا مطلب یہ ہے کہ مقام صحابیت پر فائز ہو جانے کے بعد بھی کوئی شخص قضا و قدر کے قاہرانہ تصرف سے بے خوف نہیں ہو سکتا۔
شان بندگی اسی میں ہے کہ کسی بلند سے بلند مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی مختار کل کے اختیارات سے انسان ڈرتا رہے۔
اس سے یہ بات بھی پیش نظر رہتی چاہیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جو بڑی حد تک ان خطرات سے محفوظ تھے، جب ان کے متعلق بارگاہ نبوت سے یہ جواب ملا تو پھر ہم جیسے کمزور و ناتواں لوگوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6617