صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
6. بَابُ مَنْ حَلَفَ عَلَى الشَّيْءِ وَإِنْ لَمْ يُحَلَّفْ:
باب: بن قسم دیئے قسم کھانا کیسا ہے۔
حدیث نمبر: 6651
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْطَنَعَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، وَكَانَ يَلْبَسُهُ فَيَجْعَلُ فَصَّهُ فِي بَاطِنِ كَفِّهِ، فَصَنَعَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ، ثُمَّ إِنَّهُ جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَنَزَعَهُ، فَقَالَ:" إِنِّي كُنْتُ أَلْبَسُ هَذَا الْخَاتِمَ، وَأَجْعَلُ فَصَّهُ مِنْ دَاخِلٍ فَرَمَى بِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللَّهِ لَا أَلْبَسُهُ أَبَدًا"، فَنَبَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے، اس کا نگینہ ہتھیلی کے حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں اس کے بعد ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور اپنی انگوٹھی اتار دی اور فرمایا کہ میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی جانب رکھتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا کہ اللہ کی قسم میں اب اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پس لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار کر پھینک دیں۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 421  
´سونے کی انگوٹھی پہننے کی حرمت`
«. . . 291- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس خاتما من ذهب، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فنبذه، وقال: لا ألبسه أبدا، فنبذ الناس خواتيمهم. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اسے پھینک دیا اور فرمایا: میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ تو لوگوں نے بھی اپنی (سونے کی) انگوٹھیاں پھینک دیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 421]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5867، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے بلکہ بعض استثنائی اُمور کو چھوڑ کر سونے کی ہر چیز کا استعمال ممنوع ہے۔
➋ صحابۂ کرام میں اتباعِ سنت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت کتاب وسنت پر عمل کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں رہتے تھے۔
➌ شرعی احکامات میں ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ برحق ہے اور کئی مقامات پر بعض احکامات منسوخ ہوئے ہیں۔
➍ سونے اور لوہے کی انگوٹھی کو چھوڑ کر دوسری انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: انگوٹھی پہنو اور لوگوں کو بتاؤ کہ میں نے تجھے یہ فتویٰ دیا ہے۔ (الموطأ 2/936 ح1808، وسنده صحيح]
➎ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ (کی انگلی) میں انگوٹھی پہنی ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 2٠94/62، دارالسلام: 5487]
آپ نے بائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں بھی انگوٹھی پہنی ہے۔ [صحيح مسلم: 2095، دارالسلام: 5489]
معلوم ہوا کہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے عرض ہے کہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کی کلائیوں پر گھڑی باندھنا جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 291   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1741  
´داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنائی اور اسے داہنے ہاتھ میں پہنا، پھر منبر پر بیٹھے اور فرمایا: میں نے اس انگوٹھی کو اپنے داہنے ہاتھ میں پہنا تھا، پھر آپ نے اسے نکال کر پھینکا اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1741]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فقہاء کے نزدیک دائیں اور بائیں کسی بھی ہاتھ میں انگوٹھی پہننا جائز ہے،
ان میں سے افضل کون سا ہے،
اس کے بارے میں اختلاف ہے،
اکثر فقہا کے نزدیک دائیں ہاتھ میں پہننا افضل ہے،
اس لیے کہ انگوٹھی ایک زینت ہے اور دایاں ہاتھ زینت کا زیادہ مستحق ہے،
سونے کی یہ انگوٹھی جسے آپ ﷺ نے پہنا یہ اس کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1741   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4227  
´انگوٹھی دائیں یا بائیں ہاتھ میں پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی اپنے بائیں ہاتھ میں پہنتے تھے اور اس کا نگینہ آپ کی ہتھیلی کے نچلے حصہ کی طرف ہوتا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن اسحاق اور اسامہ نے یعنی ابن زید نے نافع سے اسی سند سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4227]
فوائد ومسائل:
بائیں ہاتھ والی رویت ضعیف ہے۔
صحیح اور محفوظ دائیں ہاتھ کا بیان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4227   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6651  
6651. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور آپ نے اسے پہننا شروع کر دیا۔ آپ اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اپنی انگوٹھی اتار کر فرمایا: میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا۔ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اب میں اسے آئندہ نہیں پہنوں گا۔ اس کے بعد لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6651]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی غیر شرعی چیز کےچھوڑ دینے پر قسم کھانا جائز ہے کہ اب میں اسے ہاتھ نہیں لگاؤں گا جیسا کہ حدیث سےظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6651   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6651  
6651. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور آپ نے اسے پہننا شروع کر دیا۔ آپ اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اپنی انگوٹھی اتار کر فرمایا: میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا۔ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اب میں اسے آئندہ نہیں پہنوں گا۔ اس کے بعد لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6651]
حدیث حاشیہ:
(1)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تم اپنے قسموں کے لیے اللہ کے نام کو ڈھال نہ بناؤ۔
(البقرة: 224/2)
اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھاتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
اگر ضرورت ہو تو قسم کھائی جائے، بلاوجہ اور بلا ضرورت قسمیں اٹھانا مستحسن اقدام نہیں ہے، ہاں اگر کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہو تو مطالبے کے بغیر قسم اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان کا یہی مقصد ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ وہ سونے کی انگوٹھی کبھی نہیں پہنیں گے، حالانکہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم کھانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
(2)
دراصل دور جاہلیت میں لوگ لات و عزی اور اپنے باپ دادا کی قسمیں اٹھاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس رسم بد کا خاتمہ تھا اور آپ بکثرت کلام میں اللہ تعالیٰ کی قسم اس لیے کھاتے تھے تاکہ ان پر واضح کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی قسم کھانا جائز نہیں، نیز لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھایا کریں اور دور جاہلیت کی قسموں کو خیر باد کہہ دیں۔
(فتح الباري: 655/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6651