صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
17. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَئِكَ لاَ خَلاَقَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلاَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ} :
باب: اللہ تعالیٰ کا سورۃ آل عمران میں فرمانا ”جو لوگ اللہ کا نام لے کر عہد کر کے قسمیں کھا کر اپنی قسموں کے بدلہ میں تھوڑی پونجی (دنیا کی مول لیتے ہیں) یہی وہ لوگ ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نیک نہیں ہو گا“۔
حدیث نمبر: 6677
فَدَخَلَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ، فَقَالَ: مَا حَدَّثَكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالُوا: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ، كَانَتْ لِي بِئْرٌ فِي أَرْضِ ابْنِ عَمٍّ لِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" بَيِّنَتُكَ أَوْ يَمِينُهُ"، قُلْتُ: إِذًا يَحْلِفُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينِ صَبْرٍ وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ، يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ".
‏‏‏‏ عبداللہ یہ حدیث بیان کر چکے تھے، اتنے میں اشعث بن قیس آئے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمٰن نے تم لوگوں سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ لوگوں نے کہا اس اس مضمون کی۔ انہوں نے کہا اجی یہ آیت تو میرے ہی بارے میں نازل ہوئی تھی میرے ایک چچازاد بھائی کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا اس کے جھگڑے کے سلسلہ میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاؤ ورنہ مدعاعلیہ سے قسم لی جائے گی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پھر وہ تو جھوٹی قسم کھا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جھوٹی قسم بدنیتی کے ساتھ اس لیے کھائی کہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر جائے تو قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اللہ اس پر انتہائی غضب ناک ہو گا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6677  
6677. (حضرت عبداللہ ؓ جب یہ حدیث بیان کررہے تھے) تو حضرت اشعث بن قیس ؓ آئے اور انہوں نے پوچھا کہ ابو عبدالرحمن نے تم لوگوں سے کیا حدیث بیان کی ہے؟ لوگوں نے کہا: انہوں نے ایسا ایسا بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آیت تو میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ میرے ایک چچا زاد بھائی کی زمین میں میرا ایک کنواں تھا۔ اس کے متعلق مقدمہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: تم اپنے گواہ لاؤ بصورت دیگر مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! وہ تو جھوٹی قسم کھا لے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے بد نیتی کے ساتھ جھوٹی قسم اس لیے اٹھائی کہ اس کے ذریعے سے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کر جائے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالٰی سے اس حال میں ملے گا کہ وہ (اللہ تعالٰی) اس پر غضبناک ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6677]
حدیث حاشیہ:
ایک دوسری حدیث میں مذکورہ آیت کی شان نزول کا اس طرح ذکر ہوا ہے جس کی تفصیل حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بازار میں اپنا مال رکھا اور ایک مسلمان کو پھانسنے کے لیے جھوٹی قسم کھا کر کہنے لگا:
مجھے اس مال کی اتنی قیمت ملتی تھی، حالانکہ یہ بات غلط تھی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4551)
ممکن ہے کہ دونوں مواقع پر یہ آیت نازل ہوئی ہو کیونکہ اس کے لفظ عام ہیں جو دونوں مواقع کو شامل ہیں۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ آیت پہلے نازل ہو چکی ہو لیکن حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کو اس کا علم مذکورہ واقعے کے بعد ہوا ہو، اس لیے انہوں نے خیال کیا کہ یہ آیت اسی واقعے کے متعلق نازل ہوئی ہے۔
(فتح الباري: 682/1)
بہرحال حقوق العباد کا معاملہ انتہای سنگین اور حساس ہے، انسان کو چاہیے کہ اس سلسلے میں محتاط رہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6677