صحيح البخاري
كتاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
25. بَابُ إِذَا حَرَّمَ طَعَامَهُ:
باب: اگر کوئی شخص اپنا کھانا اپنے اوپر حرام کر لے۔
وَقَوْلُهُ تَعَالَى: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ {1} قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ سورة التحريم آية 1-2 وَقَوْلُهُ لا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ سورة المائدة آية 87".
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ التحریم میں) فرمایا «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك تبتغي مرضاة أزواجك والله غفور رحيم * قد فرض الله لكم تحلة أيمانكم‏» اے نبی! آپ کیوں وہ چیز حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے، آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہیں اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اپنی قسموں کا کھول ڈالنا مقرر کر دیا ہے۔ اور (سورۃ المائدہ میں) فرمایا «لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم‏» حرام نہ کرو ان پاکیزہ چیزوں کو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔
حدیث نمبر: 6691
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: زَعَمَ عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَزْعُمُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْكُثُ عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَيَشْرَبُ عِنْدَهَا عَسَلًا، فَتَوَاصَيْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ أَنَّ أَيَّتَنَا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْتَقُلْ: إِنِّي أَجِدُ مِنْكَ رِيحَ مَغَافِيرَ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، فَدَخَلَ عَلَى إِحْدَاهُمَا: فَقَالَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" لَا، بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا عِنْدَ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، وَلَنْ أَعُودَ لَهُ"، فَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ سورة التحريم آية 1 إِنْ تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ سورة التحريم آية 4، لِعَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا، لِقَوْلِهِ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا"، وقَالَ لِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هِشَامٍ: وَلَنْ أَعُودَ لَهُ، وَقَدْ حَلَفْتُ فَلَا تُخْبِرِي بِذَلِكِ أَحَدًا.
ہم سے حسن بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا کہ عطاء کہتے تھے کہ انہوں نے عبید بن عمیر سے سنا، کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ام المؤمنین) زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں رکتے تھے اور شہد پیتے تھے۔ پھر میں نے اور (ام المؤمنین) حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے عہد کیا کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو وہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے مغافیر کی بو آتی ہے، آپ نے مغافیر تو نہیں کھائی ہے؟ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک کے یہاں تشریف لائے تو انہوں نے یہی بات آپ سے پوچھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں نے شہد پیا ہے زینب بنت جحش کے یہاں اور اب کبھی نہیں پیوں گا۔ (کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہو گیا کہ واقعی اس میں مغافیر کی بو آتی ہے) اس پر یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها النبي لم تحرم ما أحل الله لك» اے نبی! آپ ایسی چیز کیوں حرام کرتے ہیں جو اللہ نے آپ کے لیے حلال کی ہے۔ «إن تتوبا إلى الله» میں عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ ہے اور «وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا» سے اشارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی طرف ہے کہ نہیں میں نے شہد پیا ہے۔ اور مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے ہشام سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اب کبھی میں شہد نہیں پیوں گا میں نے قسم کھا لی ہے تم اس کی کسی کو خبر نہ کرنا (پھر آپ نے اس قسم کو توڑ دیا)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6691  
6691. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سیدہ زینب حجش ؓ کے پاس ٹھہرا کرتے تھے اور وہاں شہد نوش فرماتے تھے۔ میں نے اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے پروگرام بنایا کہ جس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں۔ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ جب آپ ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ سے یہی کہا۔ تو آپ نے فرمایا: (میں نے مغافیر) نہیں (کھایا) بلکہ زینب بنت جحش‬ ؓ ک‬ے ہاں شہد نوش کیا ہے آئندہ میں شہد بھی نوش نہیں کروں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ ایسی چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟ اس آیت کریمہ میں سے ﴿إن تَتُوبَا اِلَی اللہِ﴾ سے سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ی طرف اشارہ ہے اور ﴿واِذاسرَّ النبُّی۔۔﴾ سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: نہیں بلکہ میں نے شہد نوش کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق (آپ ﷺ نے فرمایا تھا):۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6691]
حدیث حاشیہ:
حفصہ بنت عمر ؓ کے خاوند اول حذافہ سہمی جنگ بدر کے بعد فوت ہو گئے تھے۔
3ھ میں ان کا نکاح ثانی رسول کریم ﷺ سے ہوا۔
بہت نیک خاتون تھیں۔
نماز روزہ کا بہت اہتمام کرنے والی 45ھ ماہ شعبان میں انتقال ہوا۔
رضي اللہ عنها۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6691   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6691  
6691. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ سیدہ زینب حجش ؓ کے پاس ٹھہرا کرتے تھے اور وہاں شہد نوش فرماتے تھے۔ میں نے اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ن‬ے پروگرام بنایا کہ جس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائیں تو وہ کہے: میں آپ سے مغافیر کی بو پاتی ہوں۔ کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے؟ چنانچہ جب آپ ایک کے ہاں تشریف لائے تو اس نے آپ سے یہی کہا۔ تو آپ نے فرمایا: (میں نے مغافیر) نہیں (کھایا) بلکہ زینب بنت جحش‬ ؓ ک‬ے ہاں شہد نوش کیا ہے آئندہ میں شہد بھی نوش نہیں کروں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اے نبی! آپ ایسی چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جسے اللہ تعالٰی نے آپ کے لیے حلال کیا ہے؟ اس آیت کریمہ میں سے ﴿إن تَتُوبَا اِلَی اللہِ﴾ سے سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ‬ ؓ ک‬ی طرف اشارہ ہے اور ﴿واِذاسرَّ النبُّی۔۔﴾ سے مراد آپ کا یہ کہنا ہے: نہیں بلکہ میں نے شہد نوش کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق (آپ ﷺ نے فرمایا تھا):۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6691]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ نذر معصیت یا لجاج کی مثال ہے، یعنی وہ نذر جس میں انسان کسی حلال چیز کو بطور نذر خود پر حرام کر لیتا ہے۔
ایسی نذر کے متعلق اہل کوفہ کا موقف ہے کہ قسم کا کفارہ دے کر ایسی نذر کا ختم کرنا ضروری ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ ایسی نذر کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اسے ختم کر دیا جائے اور اگر قسم اٹھائی ہے تو اس کا کفارہ دے، بصورت دیگر کفارہ نہیں ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے حدیث کے آخر میں اس روایت کا حوالہ دیا ہے جس میں بصراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قسم کھانے کا ذکر ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
(3)
واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کا ذکر کیا ہے وہ کتاب التفسیر، حدیث: 4912 میں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6691