صحيح البخاري
كِتَاب الْأَذَانِ -- کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
36. بَابُ مَنْ جَلَسَ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ، وَفَضْلِ الْمَسَاجِدِ:
باب: جو شخص مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے اس کا بیان اور مساجد کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 659
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ مَا لَمْ يُحْدِثْ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، لَا يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا دَامَتِ الصَّلَاةُ تَحْبِسُهُ، لَا يَمْنَعُهُ أَنْ يَنْقَلِبَ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا الصَّلَاةُ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انہوں نے ابوالزناد سے، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ تم میں سے اس نمازی کے لیے اس وقت تک یوں دعا کرتے رہتے ہیں۔ جب تک (نماز پڑھنے کے بعد) وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے «اللهم اغفر له،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم ارحمه‏» کہ اے اللہ! اس کی مغفرت کر۔ اے اللہ! اس پر رحم کر۔ تم میں سے وہ شخص جو صرف نماز کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ گھر جانے سے سوا نماز کے اور کوئی چیز اس کے لیے مانع نہیں، تو اس کا (یہ سارا وقت) نماز ہی میں شمار ہو گا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 103  
´نماز کے انتظار میں رہنا بہت عظیم عمل ہے`
«. . . 329- مالك وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال: لا يزال أحدكم فى صلاة ما دامت الصلاة تحبسه لا يمنعه أن ينقلب إلى أهله إلا الصلاة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر آدمی اس وقت تک نماز میں رہتا ہے جب تک نماز اسے (اپنے انتظار میں) روکے رکھتی ہے۔ وہ نماز کی وجہ سے اپنے گھر واپس نہیں جاتا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 103]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 659، ومسلم 275/649 بعد ح661، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نماز کا انتظار کرنا بڑے ثواب اور فضیلت کا کام ہے۔
➋ فرض نماز مسجد میں پڑھنی چاہئے۔
➌ نیز دیکھئے آنے والی الموطأ حدیث: 330، اور حدیث سابق: 134
➍ ابوبکر بن عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے تھے: جو شخص صبح یا شام کو مسجد صرف اس لئے جاتا ہے کہ علم سیکھے یا بھلائی حاصل کرے پھر وہ گھر واپس جاتا ہے تو اس کی مثال اس مجاہد جیسی ہے جو مالِ غنیمت لے کر گھر واپس آتا ہے۔ [الموطأ 1/161 ح383، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 329   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 470  
´مسجد میں بیٹھے رہنے کی فضیلت کا بیان۔`
اسی سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک شخص برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز اس کو روکے رہے یعنی اپنے گھر والوں کے پاس واپس جانے سے اسے نماز کے علاوہ کوئی اور چیز نہ روکے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 470]
470. اردو حاشیہ:
  یعنی مسجد میں رکنا صرف نماز اور اذکار کے لئے ہو نہ کہ کسی اور غرض سے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 470   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 471  
´مسجد میں بیٹھے رہنے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ برابر نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک اپنے مصلی میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرتا رہے، فرشتے کہتے ہیں: اے اللہ! تو اسے بخش دے، اے اللہ! تو اس پر رحم فرما، جب تک کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر گھر نہ لوٹ جائے، یا حدث نہ کرے۔‏‏‏‏ عرض کیا گیا: حدث سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حدث یہ ہے کہ وہ) بغیر آواز کے یا آواز کے ساتھ ہوا خارج کرے (یعنی وضو توڑ دے)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 471]
471۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کے بعد بیٹھنے کی احادیث اور ان کی فضیلت کو عموم پر محول کیا جاتا ہے۔ کہ انسان سنتوں کے بعد فرضوں کا انتظار کر رہا ہو، یا فرضوں کے بعد سنتوں کے لئے بیٹھا ہو، یا دوسری نماز کا انتظار کر رہا ہو۔ یا ذکر اذکار میں مشغول ہو۔ ان شاء اللہ اس فضیلت سے محروم نہیں ہو گا۔ چاہیے کہ مسلمان لا یعنی اور بےفائدہ مجالس و مشاغل کو چھوڑ کر مسجد کی مجلس اختیار کرے۔
«فساء» بغیر آواز کے ہوا خارج ہونا ہے اور «ضراط» کہتے ہیں آواز کے ساتھ ہوا کے خارج ہونے کو اردو میں اسے پھسکی اور گوز یا پاد مارنا کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 471   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 330  
´مسجد میں بیٹھنے اور نماز کے انتظار کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی برابر نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ اس کا انتظار کرتا ہے اور فرشتے اس کے لیے برابر دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے، کہتے ہیں «اللهم اغفر له» ‏‏‏‏ اللہ! اسے بخش دے «اللهم ارحمه» اے اللہ! اس پر رحم فرما جب تک وہ «حدث» نہیں کرتا، تو حضر موت کے ایک شخص نے پوچھا: «حدث» کیا ہے ابوہریرہ؟ تو ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: آہستہ سے یا زور سے ہوا خارج کرنا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 330]
اردو حاشہ:
1؎:
اس حدیث سے مسجد میں بیٹھ کر نماز کے انتظار کرنے کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسجد میں حدث کرنا فرشتوں کے استغفار سے محرومی کا باعث ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 330   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:659  
659. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: فرشتے تم میں سے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی جائے نماز پر رہے، بشرطیکہ بے وضو نہ ہو۔ (دعا یہ ہے:) اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم فرما، نیز تم میں سے ہر ایک اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک نماز نے اسے روک رکھا ہو اور اپنے گھر واپس آنے کے لیے نماز کے علاوہ اور کوئی چیز مانع نہ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:659]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں دووچیزیں بیان کی ہیں:
٭مساجد کا شرف٭نماز کے انتظار میں بیٹھنے کی فضیلت۔
نماز کے انتظار میں بیٹھنے والا اسی اجر و ثواب کا حق دار ہوتا ہے جو نماز ادا کرنے سے ملتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بے وضو نہ ہو اور کسی کو تکلیف نہ دے، نیز نماز کے علاوہ اور کوئی چیز اسے گھر واپس جانے سے مانع نہ ہو۔
اگر مسجد میں نماز کے علاوہ کسی اور مقصد کےلیے ٹھہرا یا نماز کے انتظار کی نیت میں کسی اور مقصد کو بھی شامل کرلیا تو مذکورہ ثواب کا حق دار نہیں ہوگا۔
(2)
اگر کوئی مسجد سے نکل جاتا ہے لیکن دوبارہ لوٹ کر مسجد میں ہی دوسری نماز ادا کرنے کی فکر میں رہتا ہے تو اسے بھی مذکورہ ثواب نہیں ملے گا، ہاں!اس قسم کے آدمی کو اور نوعیت کا ثواب حاصل ہوگا جسے آئندہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
غالباً امام بخاری ؒ نے اسی مقصد کے پیش نظر اس حدیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 186/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 659