مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ -- 0
34. مسنَد اَنَسِ بنِ مَالِك رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 12028
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ، فَخَرَجَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَتُوُفِّيَ الْغُلَامُ، فَهَيَّأَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ الْمَيِّتَ، وَقَالَتْ لِأَهْلِهَا: لَا يُخْبِرَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ أَبَا طَلْحَةَ بِوَفَاةِ ابْنِهِ، فَرَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، وَمَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ مِنْ أَصْحَابِهِ، قَالَ: مَا فَعَلَ الْغُلَامُ؟، قَالَتْ: خَيْرٌ مَا كَانَ، فَقَرَّبَتْ إِلَيْهِمْ عَشَاءَهُمْ، فَتَعَشَّوْا، وَخَرَجَ الْقَوْمُ، وَقَامَتْ الْمَرْأَةُ إِلَى مَا تَقُومُ إِلَيْهِ الْمَرْأَةُ، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ اللَّيْلِ، قَالَتْ: يَا أَبَا طَلْحَةَ، أَلَمْ تَرَ إِلَى آلِ فُلَانٍ اسْتَعَارُوا عَارِيَةً، فَتَمَتَّعُوا بِهَا، فَلَمَّا طُلِبَتْ كَأَنَّهُمْ كَرِهُوا ذَاكَ، قَالَ: مَا أَنْصَفُوا، قَالَتْ: فَإِنَّ ابْنَكَ كَانَ عَارِيَةً مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَإِنَّ اللَّهَ قَبَضَهُ، فَاسْتَرْجَعَ، وَحَمِدَ اللَّهَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهُ، قَالَ:" بَارَكَ اللَّهُ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا"، فَحَمَلَتْ بِعَبْدِ اللَّهِ، فَوَلَدَتْهُ لَيْلًا، وَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قال: فَحَمَلْتُهُ غُدْوَةً وَمَعِي تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ، فَوَجَدْتُهُ يَهْنَأُ أَبَاعِرَ لَهُ، أَوْ يَسِمُهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ وَلَدَتْ اللَّيْلَةَ، فَكَرِهَتْ أَنْ تُحَنِّكَهُ حَتَّى يُحَنِّكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَمَعَكَ شَيْءٌ؟"، قُلْتُ: تَمَرَاتُ عَجْوَةٍ، فَأَخَذَ بَعْضَهُنَّ فَمَضَغَهُنَّ، ثُمَّ جَمَعَ بُزَاقَهُ فَأَوْجَرَهُ إِيَّاهُ، فَجَعَلَ يَتَلَمَّظُ، فَقَالَ:" حِبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرُ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِّهِ، قَالَ:" هُوَ عَبْدُ اللَّهِ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بیٹا بیمار تھا، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مسجد کے لئے نکلے تو ان کے پیچھے ان کا بیٹا فوت ہوگیا، ان کی زوجہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہ نے اسے کپڑا اوڑھا دیا اور گھر والوں سے کہا کہ تم میں سے کوئی بھی ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے کی موت کی خبر نہ دے، چنانچہ جب حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ واپس آئے تو ان کے ساتھ مسجد سے ان کے کچھ دوست بھی آئے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بچے کے بارے پوچھا، انہوں نے بتایا کہ پہلے سے بہتر ہے، پھر ان کے سامنے رات کا کھانا لا کر رکھا سب نے کھانا کھایا، لوگ چلے گئے تو وہ ان کاموں میں لگ گئیں جو عورتوں کے کرنے کے ہوتے ہیں۔ جب رات کا آخری پہر ہوا تو انہوں نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوطلحہ! دیکھیں تو سہی فلاں لوگوں نے عاریۃً کوئی چیز لی، اس سے فائدہ اٹھاتے رہے جب ان سے واپسی کا مطالبہ ہوا تو وہ اس پر ناگواری ظاہر کرنے لگے، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا یہ لوگ انصاف نہیں کر رہے، ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تمہارا بیٹا بھی اللہ کی طرف سے عاریت تھا، جسے اللہ نے واپس لے لیا ہے اس پر انہوں نے «انا لله وانا اليه راجعون» کہا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ صبح ہوئی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا اللہ تم دونوں میاں بیوی کے لئے اس رات کو مبارک فرمائے، چنانچہ وہ امید سے ہو گئیں، جب ان کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی تو وہ رات کا وقت تھا۔ انہوں نے اس وقت بچے کو گھٹی دینا اچھا نہ سمجھا اور یہ چاہا کہ اسے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھٹی دیں، چنانچہ صبح کو میں اس بچے کو اٹھا کر اپنے ساتھ کچھ عجوہ کھجوریں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹوں کو قطران مل رہے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آج رات ام سلیم کے یہاں بچہ پیدا ہوا، انہوں نے خود اسے گھٹی دینا مناسب نہ سمجھا اور چاہا کہ اسے آپ گھٹی دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا عجوہ کھجوریں ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور لے کر اسے منہ میں چبا کر نرم کیا اور تھوک جمع کر کے اس کے منہ میں ٹپکا دیا جسے وہ چاٹنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھجور انصار کی محبوب چیز ہے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کا نام رکھ دیجئے، فرمایا: اس کا نام عبداللہ ہے۔